سابقہ فیڈرل سیکرٹری اور 1977 میں ڈی سی اسلام تعینات خواجہ ظہیر احمد نے ذوالفقارعلی بھٹو کیس میں جانبداری کا ایک قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ 30 ستمبر 1977 میں شیخ عشرت مرحوم نے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے جنرل ضیاءالحق کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا، میں بطور ڈی سی وہاں ڈیوٹی پر موجود تھا کہ اچانک مجھے ایک پیغام ملا کہ آپ کے لئے فون آیا ہے۔ میں نے جب فون پہ بات کی تو وہ فون ایم ایچ شاہ صاحب کا تھا جو کہ سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج ڈاکٹر نسیم حسن شاہ صاحب کے بڑے بھائی تھے۔ انہوں نے مجھ سے استفسار کیا کہ آپ کہاں ہیں ، ڈاکٹر نسیم صاحب کا حکم ہے کہ فوری طور پر ان کے گھر پہنچیں۔
ڈاکٹر نسیم حسن شاہ اس وقت سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج تھے تو ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں انکی رہائش گاہ ہارڈلے سٹریٹ پنڈی پہنچ گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں روئیداد صاحب، جسٹس انوار الحق، مولوی مشتاق صاحب، نسیم حسن شاہ صاحب، احمد حسن شاہ صاحب اور جنرل قمر موجود تھے۔ خواجہ ظہر نے بتایا کہ مجھے بہت حیرانگی ہوئی کہ مجھے کیوں بلایا گیا ہے تو انہوں نے مجھ سے چونکا دینے والے سوالات پوچھنا شروع کر دیے۔
خواجہ ظہیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے مجھ سے پہلا سوال یہ کیا 24 اور 28 ستمبر کو پیپلز پارٹی اور پی این اے کے لیاقت باغ راولپنڈی میں جو جلسے ہوئے وہاں حاضرین کی کتنی تعداد تھی۔ تو میں نے انہیں بتایا کہ یہ رپورٹ ہو چکا ہے اور آج 30 تاریخ ہے لیکن اندازاً میں یہ بتا سکتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کا جلسہ پی این اے کے مقابلہ میں دگنا تھا۔
خواجہ ظہیر نے انکشاف کیا کہ اس جواب کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق صاحب جو سفید قمیض پہن کر بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگے کہ ’صاحب اس طرح نہیں جائے گا، کچھ اور کرنا پڑے گا‘۔
میں بہت حیران ہوا کہ یہ بات تو مجھ سے اطلاع لینے کے لئے پوچھی گئی تھی اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر کیسے کمنٹس کر رہے ہیں۔ خواجہ ظہیر نے کہا کہ یاد رہے کہ اس وقت تک ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل شروع نہیں ہوا تھا۔ ان کا ٹرائل بعد میں شروع ہوا۔
خواجہ ظہیر نے بتایا کہ اس وقت وہ بہت پریشان ہوئے کہ آخر یہ کیا قصہ چل رہا ہے، یہ واقعہ ایک بہت پرائیویٹ نوعیت کا ہے تاہم میرے ذہن میں آج آیا اور مجھے لگا کہ آج جب تاریخی حقائق پر بات ہورہی ہے تو مجھے یہ بات کر دینی چاہیئے۔