عورت مارچ کے منتظمین اور کارکنان عورتوں کے حقوق کے معاملے کو سیاسی طور پر پیش کر رہے ہیں اور ان سے صرف خلیل الرحمٰن قمر ہی نہیں کئی دیگر سنجیدہ دانشوروں کو بھی اختلاف ہے تاہم بدتمیزی کا سہارہ تنقید کے دوران صرف اور صرف خلیل الرحمٰن قمر ہی لیتے رہے ہیں۔
عورت مارچ کو اسکے حامی فیمنسٹ موومنٹ کا ایک چھوٹا سا حصہ مانتے ہیں۔ جس کی تاریخ تو کم از کم 2 سے تین صدیوں پر محیط ہوجاتی ہے۔ یقیناً فیمنزم کے تمام تر تصورات پر بھپور تنقید کی جاتی رہی ہے اور انکے رد دلیل کے طور پر بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے اور انکی اکادمی حیثیت کو بھی مانا گیا ہے۔ لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ خلیل الرحمٰن قمر کہ جو فیمنزم کو گالم گلوچ، فیمنزم کے پرچارکوں کو گالم گلوچ اور ہر وہ شخص جو عورت مارچ کا حامی تھا اسے گالیا دیتے رہے انہوں نے اب انکشاف کیا ہے کہ انہیں ماروی سرمد سے بحث سے قبل فیمنزم کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔
انہون نے اے آر وائی کے شو میں میزبان واسع چوہدری سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ انہیں فیمنزم کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ ماروی والے واقعے کے بعد سے میں نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ اس پر میزبان کی جانب سے سوال کیا گیا ہے کہ آپ کے لیئے اب فیمنزم کیا ہے؟ جس پر انہوں نے جنگ عظیم اول میں مردوں کے مارے جانے کے بعد سے معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں اور خواتین کے حقوق کے بارے میں بتایا اور اسے ہی فیمنسٹ موومنٹ کا نقطہ آغاز قرار دیا۔ ساتھ ہی اس وقت کے خواتین کے مطالبات کی وکالت بھی پیش کی اور کہا کہ میں ان سب کا داعی ہوں، انہوں نے کہاکہ وہ سب کچھ جو عاشرے کی روایات کو نہ پامال کرے میں اس کے حق کے حق میں ہوں۔
تاہم اگر حقائق کو دیکھا جائے تو خلیل الرحمٰن قمر اب بھی فیمنسٹ موومنٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ خلیل الرحمٰن قمر اب عورتوں کے حقوق کے لیئے پہلے اجتماع جو کہ 1848کے سینیکا فالز کنوینشن کے نام سے جانا جاتا ہے ، کو نہیں جانتے تو 1792 کی ولسٹون کرافٹ کی تصنیف اے وینڈیکیشن آف رائٹس آف دی ویمن کو کیا ہی جانتے ہوں گے۔ اور اسی ناسمجھی کی نمی سے آلود گولوں کو لفظوں کی توپ میں داغتے رہیں گے اور معاشرے کی گمراہی کا سبب بنتے رہیں گے۔