خط کے مصنفین نے گزشتہ حکومت کے مجوزہ فیصلوں کو قوم کی فلاح وبہبود اور یگانگت کے لئے ایک خطرہ قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ غیر قانونی پائے جانے کی صورت میں ذمہ دران کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے فیصلوں کا سدباب کیا جا سکے۔خط میں ایک جوڈیشنل کمیشن کے قیام کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے تا کہ سابقہ حکومت کے خلاف بیرونی سازش کے الزامات کے حوالے سے ثبوت و شواہد کی جانچ پڑتال کی جا سکے۔خط میں واضح کیا گیا ہے کہ غیر ثابت شدہ الزامات کو بہانہ بنا کر پارلیمانی عمل کو معطل اور اراکین پارلیمنٹ کے حق رائے شماری کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔
خط یہ دستخط کرنے والوں میں ماہرین تعلیم، وائس چانسلرز، صحافی اور انسانی حقوق کے علمبردار جس میں ایچ ای سی کے چیرر برسن طارق بنوری، ماہرین تعلیم سلیمہ ہاشمی، ڈاکٹر عائشہ رزاق، رضا رومی، ڈاکٹر عمار علی جان، پروفیسر فتح مری، ڈاکٹر اشتیاق احمد، انسانی حقوق کے کارکنوں جناب حارث خلیق، کرامت علی، پیٹر جیکب، عامر رانا، نعیم مرزا، عدنان رفیق، عارف آذاد، ممتاز صحافی ناصر زیدی، عاصمہ شیرازی، عامر غوری، محسن بیگ، ضیغم خان، اقبال خٹک، عدنان کاکڑ، عدنان رحمت، سبوخ سید، ماہر قانون اکرم راجہ اور دیگر شامل ہیں.
خط میں کہا گیا ہے کہ آئینِ پاکستان معا شرے کے تمام طبقات کے درمیان ایک مقدس معاہدہ اور کروڑوں شہریوں کے مشترکہ مفادات کا عکاسی ہے. آئین وقانون کی مکمل اور غیر مشروط پابندی ایک پرامن، مہذب اور خوشحال معاشرے کے قیام اور تسلسلکے لئے ناگزیر ہے جبکہ اس سے اجتناب نقش امن اور معاشرے میں افراتفری کا موجب بنتا ہے.خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آج آئین کے تقدس کے حوالے سے جو بھی کرے گا وہ ہماری قومی زندگی اور مستقبل کے حوالے سے دور رس اثرات مرتب کرے گا. ہماری آئندہ نسل کی عزت و آبرہ اور خوشحالی کا دارومدار صرف آئین کی بالادستی اور ایسی سیاست کے فروغ میں ہے جس میں باہمی احترام اور شائستگی کے اجزا شامل ہوں.
خط کنندگان نے اس امید کا اظہار کیا کہ جج صاحبان کی آئین سے غیر متزلزل وابستگی اور انصاف سے والہانہ لگاؤ قوم کو اس کٹھن وقت سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوگا۔