اعدادوشمار کے مطابق ان حملوں میں جانی نقصانات اور زخمیوں کے تناسب میں بالترتیب چار گنا اور نو گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مارچ میں عسکریت پسندوں کے 26 حملے میں 115 افراد مارے گئے جن میں 31 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار، 70 عام شہری جبکہ 14 عسکریت پسند شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ 288 افراد زخمی ہوئے جن میں 63 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 225 عام شہری شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندوں نے فروری 2022 میں ملک بھر میں13 حملے کیے تھے، جن میں 25 افراد ہلاک اور 30 افراد زخمی ہوئے تھے۔ خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقہ جات زیادہ تر ان حملوں کا مرکز رہے اور ملک بھر میں سب سے زیادہ دہشتگردی کے واقعات یہاں رپورٹ ہوئے جبکہ بلوچستان ان حملوں میں دوسرے نمبر پر رہا۔
خیبر پختونخواہمیں عسکریت پسندوں کے نو حملے ریکارڈ کیے ہیں جن میں 77 افراد مارے گئے۔ مارے جانے والوں میں سیکیورٹی فورسز کے 11 اہلکار، چار عسکریت پسند جبکہ 62 عام شہری شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں عسکریت پسندوں کی جانب سے آٹھ حملے کیے گئے جن میں22 افراد مارے گئے، ان میں نو سیکیورٹی فورسز کے اہلکار جبکہ نوعسکریت پسند شامل تھے۔
گذشتہ ماہ شورش زدہ صوبہ بلوچستان بھی عسکریت پسندوں کے نشانے پر رہا جہاں چھ حملے ریکارڈ کئے گئے۔ ان حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے 11 اہلکار اور تین عام شہری مارے گئے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ میں عسکریت پسندوں کے تین حملے ریکارڈ کیے گئے جس میں ایک شہری مارا گیا جبکہ پنجاب میں گزشتہ ماہ کے دوران کوئی دہشت گرد حملہ نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے مارچ 2022 میں ملک میں 39 حملوں کا دعوٰی کیا تھا جبکہ کالعدم ٹی ٹی پی نے رمضان میں آپریشن البدر کا اعلان بھی کیا ہے اور پاکستان میں خود کش حملے کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
دریں اثنا، پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کے خلاف 13 کارروائیاں کیں جن میں 38 مشتبہ دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا اور 29 ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ گرفتاریاں صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہوئیں۔
کیا دہشگردی ایک بار پھر پنجے گاڑ رہی ہے؟
سیکیورٹی امور اور دہشتگردی پر نظر رکھنے والے ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سنہ 2021 سنہ 2020 کی نسبت دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان پر بھاری رہا اور 2020 کے مقابلے میں 2021 میں دہشتگردی کے واقعات میں 422 فیصد اضافہ ہوا اور پاکستان میں 207 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 335 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ 555 افراد زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے افراد میں سے 177 سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے جبکہ 126 عام شہری اور 32 دہشت گرد تھے۔ ڈیٹا کے مطابق سال 2022 میں بھی ان حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ادارے کے مطابق 2021 کے ان حملوں میں سے 128 کارروائیوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان، مقامی طالبان گروپس اور داعش ملوث تھے۔ 2020 میں ان گروپس نے مجموعی طور پر 95 حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
بی بی سی اردو کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں 2017 کے بعد بتدریج کمی آنا شروع ہو چکی تھی۔ اس کا اندازہ اعدادوشمار کی مدد سے لگایا جائے تو ساؤتھ ایشیا ٹیریرزم پورٹل کے مطابق سنہ 2013 میں پاکستان میں دہشت گردی کے تقریبا چار ہزار واقعات ہوئے تھے جو 2020 میں کم ہو کر 319 رہ چکے تھے۔
ان میں سے بھی کئی واقعات ایسے تھے جن میں کالعدم تحریک طالبان، القاعدہ جیسے شدت پسند گروہو کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ ملک میں موجود دہشت گردوں کی کارروائیوں کا دائرہ کار انتہائی محدود ہو چکا ہے اور دہشت گرد گروہ ملک بدر کر دیے گئے ہیں۔ اس دورانیے میں ایسی رپورٹس بھی موصول ہوییں کہ کالعدم تحریک طالبان کے زیادہ تر اراکین افغانستان فرار ہو چکے تھے اور کئی جیلوں میں قید ہیں۔
کیا تحریک طالبان پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہے؟
سنگاپور میں مقیم ٹیرزم ایکسپرٹ اور ایس راجہ رتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ریسرچ فیلو عبد الباسط بی بی سی اردو کو انٹریو دیتے ہوئے کہا پاکستان میں دہشت گردی کی موجودہ لہر کا آغاز اگست میں ہوا تھا جب کالعدم تحریک طالبان کو ایک جانب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد آزادی اور حوصلہ ملا تو دوسری جانب 11 مختلف گروہ موجودہ سربراہ نور ولی محسود کی قیادت میں دوبارہ اکھٹے ہوئے۔ انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ نور ولی محسود کی سربراہی میں دوبارہ متحد اور مضبوط ہوئی جس کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔
عبدالباسط کے مطابق دہشت گردی کا سلسلہ افغانستان سے منسلک سابقہ قبائلی علاقوں خصوصاً وزیرستان، باجوڑ اور دیر سے شروع ہوا مگر بتدریج ان کا دائرہ کار خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع سمیت پنجاب اور بلوچستان کے شہری علاقوں تک بڑھا ہے اور حالیہ لہر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ’اس بار اہداف محدود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ نور ولی محسود نے اپنی جنگ کو پاکستان میں فقط سیکورٹی فورسز اور حکومت کے بعض اہداف تک محدود رکھا جس کا مقصد یہ تھا کہ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کے حملوں میں عوام کے جانی و مالی نقصانات سے ان کی تنظیم کو عوامی سطح پرجس تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اس کا راستہ روکا جائے۔
کیا ان حملوں میں اضافے کا تعلق افغانستان میں رونما ہونے والے تبدیلی سے ہے؟
دہشتگردی اور ان کے محرکات کو جاننے والے بہت سارے ماہرین کا ماننا ہے کہ افغانستان میں صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت جانے اور طالبان کی حکومت انے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کو ایک بار پھر نہ صرف اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے کا موقع ملا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے حملوں میں بھی تیزی دیکھی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان نے کئی بار افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کرنے کی درخواست کی لیکن پاکستان کے تحفظات پر افغان طالبان نے کوئی مثبت ردعمل نہیں دیا ہے۔