اب تک طالبان کی پیش قدمی کی صورتحال کیا رہی ہے؟
اس حوالے سے بی بی سی کی ایک رپورٹ کا حوالہ بر محل ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ تفصیلات کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے ملک بھر میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے جن میں ملک کے شمالی، شمال مشرقی اور وسطی صوبے، غزنی اور میدان وردک شامل ہیں۔ طالبان اب ملک کے بڑے شہروں قندوز، ہیرات، قندہار اور لشکر گاہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
جن اضلاع میں طلبان نے قبضہ کر لیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ضلعی انتظامی مراکز، پولیس کے ضلعی ہیڈکواٹر اور دیگر ضلعی اداروں کی عماراتوں سے سرکاری اہلکاروں اور سیکیورٹی فورسز کو بے دخل کر دیا ہے۔
امریکہ اور نیٹو کی افواج نے شمالی اتحاد اور طالبان مخالف دیگر مسلح گروہوں کی مدد سے نومبر سنہ 2001 میں طالبان سے اقتدار چھین لیا تھا اور کابل کے علاوہ ملک کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
طالبان پر الزام تھا کہ وہ اسامہ بن لادن (ماضی میں) سمیت القاعدہ کی مرکزی شخصیات کو پناہ دیے ہوئے ہیں جن کو گیارہ ستمبر سنہ 2001 میں امریکہ پر دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
لیکن غیر ملکی افواج کی موجودگی اور افغانستان سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور اسلح کی فراہمی پر اربوں ڈالر خرچ کیے جانے کے باوجود طالبان کو ختم نہیں کیا جا سکا اور ملک کے دور دراز علاقوں میں ان کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ وہ ان علاقوں میں اپنے آپ کو منظم کرتے رہے اور اپنی طاقت میں اضافہ کرتے رہے