فواد چوہدری نے یہ بات ہفتے کو 'آج نیوز کے پروگرام روبرو' میں توہین مذہب کے الزامات پر سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کے قتل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
https://youtu.be/lTBb0GP8XoI
پروگرام کے دوران سینیٹر کی کی ٹی ایل پی رہنما سے ملاقات کے حوالے سے سوال پر فواد چوہدری نے اس عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں اعجاز چوہدری صاحب کی ٹی ایل پی قیادت سے ملاقات ایک بیہودہ حرکت تھی، انہوں نے شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے گھروں کا دورہ کیوں نہیں کیا؟
خیال رہے کہ سینیٹر اعجاز نے گزشتہ ماہ ٹی ایل پی کے سربراہ رضوی سے 'جذبہ خیر سگالی' کے طور پر ملاقات کی تھی اور انہیں جیل سے رہائی پر مبارکباد دی تھی، اعجاز کے گلے ملنے اور سعد رضوی کو گلدستہ پیش کرنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی تھیں۔یہ ملاقات ٹی ایل پی اور وفاقی حکومت کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار اور دو ہفتوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد 31 اکتوبر کو ایک معاہدے پر پہنچنے کے بعد ہوئی تھی جہاں اس سے قبل ٹی ایل پی کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں سات پولیس اہلکار اور ٹی ایل پی کے متعدد کارکن ہلاک ہو گئے تھے۔
اس معاہدے کے ایک ہفتے بعد 7 نومبر کو وفاقی کابینہ نے ٹی ایل پی کو ملک کے انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت 'کالعدم' تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا تھا۔
فواد چوہدری نے ٹی ایل پی کے پرتشدد مظاہروں سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے حوالے سے اپنی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست اپنے شہدا کو اپناتی نہیں ہے تو پھر کل ان کے ساتھ کون کھڑا ہو گا۔
سیالکوٹ سانحے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ انتہا پسندی کے مسئلے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر نمٹنا ہوگا اور اس بات پر زور دیا کہ ملک کے تعلیمی نظام خصوصاً چھٹی سے 13ویں جماعت تک کے نصاب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکامی سیاسی جماعتوں کے درمیان وسیع پیمانے پر تقسیم کی وجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی کو روکنے کے لیے سیاسی قیادت کے فیصلوں کی روشنی میں نیشنل ایکشن پلان کی شکل میں کیے جا چکے ہیں، جب تک ریاست لوگوں سے انفرادی طور پر طاقت کے استعمال کا حق واپس نہیں لے لیتی ہم اس دلدل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جو علما انتہا پسندی کے خلاف بات کرتے تھے انہیں شہید یا پاکستان سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا، تو جب حکومت زندگی کے حق کا نفاذ نہیں کر سکتی تو مخالف بیانیہ کون دے گا؟
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سری لنکن شہری کا بہیمانہ قتل پاکستان کی انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہو گا تو وزیر اطلاعات نے کہا کہ مسئلہ صرف واقعے میں میں ملوث مجرموں کو پھانسی یا قید کرنے سے ختم نہیں ہوگا۔ مسئلہ اس سے بڑا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ آپ روزانہ کی بنیاد پر ایسے پاگل کتے پیدا کر رہے ہیں، آپ اسے کیسے روکیں گے، ریاست کو زبانوں پر تالے لگانا ہوں گے اور ان لوگوں پر قانون نافذ کرنا ہو گا جو ان مسائل کی وجہ ہیں۔
فواد چوہدری نے تسلیم کیا کہ موضوع کو پیچیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وفاق اور صوبوں کو نیشنل ایکشن پلان میں دیے گئے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرنا ہو گا اور عمل درآمد میں موجود خلا کو پُر کرنے کے لیے ایکشن پلان کا جائزہ لینا ہو گا۔
وفاقی وزیر کا بیان ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب سیالکوٹ میں سینکڑوں مشتعل مظاہرین نے فیکٹری مینیجر کمارا کو اسے تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا اور بعد میں اس کی لاش کو جلا دیا تھا۔
راجکو انڈسٹریز کے 900 کارکنوں کے خلاف اوگوکی اسٹیشن ہاؤس آفیسر ارمغان مقت کی درخواست پر ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 297، 201، 427، 431، 157، 149 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 7 اور 11 ڈبلیو ڈبلیو کے تحت درج کی گئی ہیں۔
درخواست گزار نے اعتراف کیا کہ مظاہرین نے اس کی موجودگی میں کمارا کو تھپڑ مارے، لاتیں ماریں، گھونسے اور ڈنڈوں سے مارا اور انہیں وزیر آباد روڈ پر واقع فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لے گئے جہاں اس کی موت ہو گئی، اس کے بعد انہوں نے لاش کو آگ لگا دی۔
ایس ایچ او نے کہا کہ وہ نفری کی کمی کی وجہ سے ہجوم کے سامنے بے بس تھے۔
گزشتہ دو دنوں کے دوران پولیس نے متعدد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں وحشیانہ قتل میں ملوث 19 مرکزی ملزمان بھی شامل ہیں۔