سین 1
ہر کوئی دوسرے سے آگے بڑھنے کی لگن لے کر
کچھ کرنا، کچھ دکھانا چاہتا تھا ، بہت کچھ کرگزرناچاہتا تھا۔
کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ،،کوئی پتھر اٹھائے ہوئے تھا
مقصد سے عاری،، مطلب سے دور ۔۔ جس کی زباں پر جو نعرہ آیا ۔ نکل گیا
سب نے مل کرگیٹ توڑا، ایک دوسے پر گرے لیکن
سب "فاتح" کی طرح اندر داخل ہوئے،
کھڑکیوں کے شفاف شیشے ان کے "ولولے" کے سامنے خاموش اور لاتعلق۔۔۔
ایک دو نے شیشے میں دیکھ کر اپنے بال سیدھَے کیے ہی تھے کہ پیچھے سے کسی نے پتھر دے مارا ،، سب کرچی کرچی ہوگیا
۔۔۔۔۔
سین 2
وہ ٹیلی فون والے ٹیبل کے نیچے چھپ گیا ،
اور اپنے ،ہرکئے نہ کئے گناہ کی معافی مانگنے لگا
آج اسکو خدا اپنے بہت قریب محسوس ہو رہا تھا
اور ہجوم کا خوف اتنا کہ شاید خود ہی اپنا گلا گھونٹ لے
آوازیں اسکے دل و دماغ کو محصور کر چکی تھیں
……
سین 3
ایک لڑکے نے نعرے لگا کر دروازہ توڑ دیا
ہجوم منزل کے قریب سے قریب تر ہو رہا تھا
کسی نے کرسی کو لات ماری کسی نے ٹیبل کا شیشہ توڑ دیا
ایک زور دار آواز سے ٹیلی فون بھی کئی ٹکڑوں میں بکھر گیا
۔۔۔۔
آخری سین
ٹیلی فون ٹوٹنےکی آوازپراسے یوں لگا
جیسے کسی نے اس کے سر پر ہتھوڑا دے مارا
اس نے اپنے سر پر ہاتھ لگا کر دیکھا تو لال نہیں تھا
شور دوسرے دروازے سے اگلے کمرے میں جا کر ٹھنڈا پڑ گیا
سرکاری ٹی وی کے ٹیلی فون آپریٹَر کو شدت سے محسوس ہوا ،،،
خدا آج واقعی اس کے بہت قریب تھا