خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ہفتے کو بھارتی فوج کو علاقے میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت کی خفیہ اطلاع موصول ہوئی تھی جس کے بعد فوجیوں نے ٹرک پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس واقعے پر غصے و غصے کا اظہار کرنے والے مظاہرین نے دو فوجی گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی اور مظاہرین پر فوج کی فائرنگ سے مزید 8 افراد مارے گئے تھے جبکہ اس دوران ایک بھارتی فوجی بھی مارا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے میں 28 افراد زخمی بھی ہوئے جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔
ناگالینڈ میں فوج کی جانب سے کرفیو لگائے جانے کے باوجود فوجی بربریت پر برہم عوام نے بھرپور احتجاج کیا اور مقتولین کے جنازے میں بڑی تعداد میں شرکت کی۔ فوج کی جانب سے بندشوں اور انٹرنیٹ بند کیے جانے کے باوجود سینکڑوں ہزاروں افراد مقتولین کے جنازے لے کر ضلع مون میں جمع ہوئے جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
ناگالینڈ میں لگاتار دوسرے دن پیر کو بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور ریاستی دارالحکومت کوہیما میں متاثرین نے شمع بردار مارچ کیا۔
جنازے میں وزیر اعلیٰ ناگالینڈ نیفیئو ریو نے بھی شرکت کی اور فوج کی سفاکیت پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ریاست میں ان کے اختیارات کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت خطے میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کا خاتمہ کرے جس کے تحت ریاست میں فوج کو تعینات کیا گیا ہے۔ یہ کالا قانون ہے، بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لہٰذا اس قانون کو ختم کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج پوری دنیا اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے لہٰذا اسے ختم ہونا چاہیے۔
بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں باغیوں کی نقل و حرکت کے بارے میں معتبر خفیہ اطلاعات موصول ہونے پر ناگالینڈ کے مون ضلع میں مخصوص آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی تھی البتہ شناخت میں غلطی کے سبب یہ واقعہ پیش آیا۔
البتہ مقامی افراد نے فوج کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
مقامی قبائلی رہنما فینگ نون کونیاک نے کہا کہ اگر یہ آپریشن خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کیا گیا تھا تو شناخت میں غلطی کیسے ہو سکتی ہے، یہ کھلم کھلا سفاکانہ قتل عام ہے۔