وقت آ گیا ہے کہ لوگوں کو یہ سچ بتایا جائے کہ اسلام اور انسانیت کے بدترین دشمن کوئی اور نہیں، ہمارے ہی پالے پوسے طالبان ہیں اور اگر انسانیت کی صحیح معنوں میں کسی نے خدمت کی ہے تو یہی یہود و نصاریٰ نے۔ انہی لوگوں نے معاشرے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت انسانوں کا معیار زندگی بلند کیا۔ یہ سوشل میڈیا، یا انٹرنیٹ، یہ سمارٹ فون اور یہ فور بائی فور گاڑیاں جن کا بہترین استعمال تحریک طالبان پاکستان اور ان جیسے ہی کرتے ہیں، انہی یہود و نصاریٰ کی ان گنت ایجادات ہیں۔
اگر ہم نے یہ سچ ابھی بھی نہ بولا تو ٹی ٹی پی کے درندے ہمارے بچوں کو سکولوں میں گھس گھس کر مارتے رہیں گے اور ان وحشیوں کے جنرل اسد درانی ایسے روحانی باپ و پیشوا ٹی وی پر آ آ کر نہایت فصاحت سے ان کی بربریت کو 'ضمنی نقصان' یعنی ‘Collateral Damage’ کا نام دے دے کر ان کے ظلم و ستم کا دفاع کرتے رہیں گے۔ جو کچھ ٹی ٹی پی نے کیا، اس کے آگے چنگیز خان اور ہلاکو خان کے کارنامے بھی معصومانہ لگتے ہیں۔
ان وحشیوں نے 30 نومبر کو کوئٹہ میں ایک خودکش حملہ کیا جس کے نتیجے میں 4 معصوم جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 30 بری طرح زخمی ہوئے۔ دلیل یہ پیش کی کہ حملہ بدلہ ہے عمر خالد خراسانی کے قتل کا۔ ان کے انتقام کی کبھی نہ بجھنے والی آگ نے انہیں یکم دسمبر کو ایک بے گناہ پولیس کانسٹیبل کی جان لینے پر مجبور کیا۔ یہ غریب چارسدہ میں محکمہ ایکسائز کا محافظ تھا۔ دو دن بعد اسی جذبہ انتقام کے کارن انہوں نے نوشہرہ میں پولیس کی ایک وین کو گھات لگا کر نشانہ بنایا اور 3 بے گناہ پولیس والوں کا ناحق خون کیا۔
اس ملک میں سقراط سے بھی بڑے دانش ور بکثرت پائے جاتے ہیں۔ انہیں چاہئیے کہ لوگوں کو بتائیں کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچے جن کا ٹی ٹی پی ( تحریک طالبان پاکستان) نے بے دردی سے قتل کیا ان میں سے کوئی بھی ‘Bleed India’ یا ‘Strategic Depth’ یا ‘Good and Bad Taliban’ ایسی گمراہ کن اصطلاحات کا خالق نہ تھا۔ ان میں سے کسی نے بھی اسامہ بن لادن کو نہیں مارا تھا۔ ان میں سے کسی نے بھی جمہوری حکومتوں کو چلتا کر کے جہادیوں کا فارم نہیں کھولا تھا۔ ان میں سے کسی نے بھی کولن پاول کی دھمکی سے ڈر کر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے اتحاد میں شمولیت اختیار نہ کی تھی۔ پھر انہیں کیوں مارا؟ ان کا کیا قصور تھا؟
جناب آپ 24 گھنٹے ٹی وی چینلز یا سوشل میڈیا پر جلوہ افروز رہتے ہیں۔ ساری دنیا آپ کو دیکھتی سنتی ہے۔ لوگوں کو بتائیے کہ عمر خالد خراسانی 7 اگست کو پکتیکا، افغانستان میں مارا گیا تھا۔ ہزاروں میل دور کراچی میں بیٹھے راہگیر کو اس کے قتل کے شبے میں بذریعہ خودکش حملہ یا ہدف بنا کر قتل کرنے کا حکم اسلام کی کس کتاب میں موجود ہے؟
7 اگست سے اب تک ایک خراسانی کے بدلے میں یہ درندے 63 معصوم لوگوں کی جانیں لے چکے ہیں۔ اگر 'آنکھ کے بدلے آنکھ' اور 'جان کے بدلے جان' والا اصول بھی لاگو کر دیا جائے (جو کہ حالات کی روشنی میں بالکل غلط ہے) تو بھی ایک کے بدلے 63 کی جان لینا کس مذہب کی تعلیمات ہیں؟ کیا یہ سفاک وحشی ایک خراسانی کا بدلہ پاکستان میں موجود ہر جاندار کا قلع قمع کر کے لیں گے؟ پھریہ جھوٹ بولتے ہیں اور کوئی ان کی دروغ گوئی کے بارے میں زبان نہیں کھولتا۔ 30 نومبر کو یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم جون والا سیز فائر کینسل کر رہے ہیں۔ جون سے اب تک یہ کئی حملے کر کے درجنوں شہریوں کی جان لے چکے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مولویوں، مسجدوں، لاؤڈ سپیکروں، مسجد کے منبروں، جمعے کے خطبوں کے علاوہ ہر نماز با جماعت میں لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ ٹی ٹی پی اور اس جیسے دہشت گرد شیطان کے چیلے ہیں۔ ان کا اسلام، انسانیت تو چھوڑ دنیا کے کسی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ دجالی فتنہ ہے۔ یہ ایک ناسور ہے جو پہلے پاکستان اور اس کے بعد ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔ جرنیلوں کے پورٹریٹ ٹرکوں کے پیچھے لگانے کے بجائے ان کے کارناموں پر پورٹریٹ بنائے جائیں۔ بتایا جائے کہ طالبان اللہ اور نبی کے دشمن ہیں۔
ہر سرکاری و غیر سرکاری حلف یا اقرار نامے میں یہ ذکرہو کہ ہاں میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ٹی ٹی پی کے طالبان اور ان جیسے تمام لوگ انسانیت کے دشمن ہیں۔ ان کا مذہب صرف شیطانی ہے۔ جب تک یہ اقرار لکھت میں نہ دیا جائے، کسی کو بھی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ نہ دیا جائے۔ کسی کو بھی برتھ سرٹیفکیٹ نہ جاری کیا جائے۔ کسی کو بھی سکول کالج یونیورسٹی میں داخلہ نہ دیا جائے۔ درسی کتب، اخباروں، رسالوں، ملی نغموں، فلموں، تھئیٹر، شاعری، افسانوں، ناولوں، کالموں، میمز غرض جتنے بھی طریقے ہو سکتے ہیں، ان سب کے ذریعے سے ان کی شیطانیت کو لوگوں کے سامنے لایا جانا چاہئیے۔ محض فوجی آپریشن سے انہیں شکست دینا ناممکن ہے۔ یہ سچ مچ میں تحریک بن چکے ہیں۔ اس ملک کا ہر آدمی اندر سے طالبان بن چکا ہے۔ سوچ بدلنا پڑے گی اور یہی راستہ ہے معاشرے میں مثبت سوچ متعارف کرانے کا۔
کل پرسوں ہمارے نئے آرمی چیف لائن آف کنٹرول پر گئے تھے۔ 27 اکتوبر کو ایک احمق جو بھارت کا وزیر دفاع ہونے کے علاوہ مودی کا چمچہ بھی ہے، کہتا ہے کہ گلگت بلتستان کو بھی بھارت کا حصہ بنائیں گے۔ جنرل صاحب نے اسے للکار کر کہا کہ پتر کر کے ویکھ، اسی تیری زبان بند کر دیاں گے!
جنرل صاحب کو چاہئیے کہ بھونکتے ہوئے اس کتے کو نظرانداز کریں۔ 27 اکتوبر سے اب تک بھارت تو پاکستان میں گھسا نہیں وہ حملے کرنے جو ٹی ٹی پی نے کئے، جس کے نتیجے میں درجنوں شہری مارے گئے۔ تو پھر اصلی دشمن کون ہوا؟ بھارت یا ٹی ٹی پی؟
جنرل صاحب کو تھوڑی بہت Lateral Thinking کرنی چاہئیے۔ وہ سمجھ جائیں گے کہ ٹی ٹی پی اور عمران خان کے ہوتے ہوئے پاکستان کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہے اور نریندر مودی کے ہوتے ہوئے پاکستان کو بھارت کا بندوبست کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ مودی اس صدی کا سب سے بڑا جید جاہل ہے۔ بھارت کو وہ نقصان پہنچا رہا ہے جو ہم نہیں پہنچا سکتے۔ اسے لگا رہنے دیں۔ اس بات پر غور کریں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90 ہزار پاکستانی شہری و فوجی مارے گئے۔ 1947، 1965، 1971 اور 1999 کی چار پاک بھارت جنگوں میں ہونے والے انسانی نقصان کو جمع کر لیں۔ یقین کریں یہ 5 ہزار بھی نہ ہو گا۔