خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی زندگی کے چار مقاصد مشعل راہ ہیں

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی 1934 میں پشین کی عدالت میں دوران سماعت اپنی سیاست کے خدوخال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری زندگی کے چار مقاصد ہیں؛ اشاعت تعلیم اسلام، اشاعت علوم جدید، اظہارِ صداقت اور اپنے ملک کے لیے بہترین حکومت۔ ملک کو درپیش حالیہ گھمبیر مسائل کا حل خان شہید کی تعلیمات میں مضمر ہے۔

06:02 PM, 6 Dec, 2023

ولی محمد علیزئی

بنی نوع انسان کی تاریخ میں بعض اشخاص اپنی آفاقی تعلیمات، نیک مقاصد اور ان کے حصول کے لیے بے لوث جہد مسلسل کی بدولت تاریخ کے اوراق میں رہتی دنیا تک امر ہو جاتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک نظریے اور فکر کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ ایسی ہی نامور شخصیات کی صف میں ایک نمایاں نام خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کا ہے جن کا نام سنتے ہی ذہن میں ضد امپیریلزم، ضد فیوڈلزم اور قومی جمہوری سیاست کے ایک ناقابلِ فراموش اور روشن عہد کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ کا آغاز سیاست کسی بیرونی عنصر، فرد یا تنظیم کے مرہون منت نہیں ہے بلکہ آپ کے اپنے تخیل، ذاتی مشاہدے اور اندرونی روشنی کا نتیجہ ہے۔

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے وضع کردہ سیاسی نظریات اور اہداف کا نچوڑ آپ کے 1934 میں پشین کی عدالت میں اور 1956 میں لاہور کی عدالت میں بیانات ہیں جن میں بیان شدہ مسائل اور ملک کو درپیش موجودہ مسائل کا موازنہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس دوران کچھ نہیں بدلا ہے۔ موجودہ مسائل کے حل کے لیے خان شہید کے نظریات آج بھی اتنے ہی قابل عمل ہیں جتنے 89 برس اور 67 برس پہلے تھے۔ پاکستان کے ہر سیاسی کارکن بالخصوص پشتونخوا وطن کے تمام سیاسی کارکنان کو لازمی مذکورہ بالا عدالتی بیانات کا مطالعہ اور اس پر غور و خوض کرنا چاہئیے۔

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی 1934 میں پشین کی عدالت میں دوران سماعت اپنی سیاست کے خدوخال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری زندگی کے چار مقاصد ہیں؛ اشاعت تعلیم اسلام، اشاعت علوم جدید، اظہارِ صداقت اور اپنے ملک کے لیے بہترین حکومت۔

عبدالصمد خان اچکزئی نے اپنی سیاست کا آغاز اشاعت تعلیم اسلام سے کیا تھا۔ عام لوگوں کو رجعتی ملاؤں کی ذاتی یا ریاستی مفاد کے لیے اسلام کی تشریح کرنے کے مقابلے میں کلام الہیٰ اور حقیقی اسلام سے روشناس کرانے کے لیے آپ نے گاؤں کی مسجد میں فرقان حمید کی آیات کے پشتو ترجمہ سے کیا۔ اس مقصد کے لیے اپنی زندگی کے دوران آپ نے مولانا عبد الکلام آزاد کا 'ترجمان القرآن' کے نام سے تفسیر قرآن، امام غزالی کی کتاب 'کیمیائے سعادت' اور امام سعدی کی تصنیف 'گلستان سعدی' کے پشتو تراجم کیے۔

خان شہید کو شعوری عمر تک پہنچنے سے ہی یہ ادراک تھا کہ جدید علوم ہی ترقی کی بنیاد اور معیار ہیں جس کے بغیر پشتون قوم دیگر ترقی یافتہ قوموں کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اس کے بغیر پشتون ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ عبدالصمد خان اچکزئی ہمیشہ قوم کو جدید علوم کے حصول کی ترغیب دیتے تھے تا کہ پشتون بھی دیگر باوقار اقوام کی صف میں شامل ہو سکیں۔ خان شہید کا نظریہ تھا کہ تعلیم تب ہی مفید اور مؤثر ہو سکتی ہے جب یہ مادری زبان میں دی جائے۔ ماہرین تعلیم بھی اس بات پر متفق ہیں اور اقوام متحدہ نے کچھ برس پہلے خان شہید کے اس نظریے کو تسلیم کرتے ‏ہوئے 12 سال سے پہلے بچے کو غیر مادری زبان میں تعلیم دینا بچے کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ خان شہید مادری زبان کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کاروبار اور سرکاری دفاتر میں بھی رائج کرانا چاہتے تھے۔ خان شہید کا یہ مطالبہ تھا کہ حکومت مادری زبان میں ابتدائی تعلیم مفت اور لازمی قرار دے۔

عبدالصمد خان اچکزئی کی سیاست کا محور پاکستان میں ہم جوار اور متصل لیکن منقسم پشتون علاقے شمالی پشتونخوا (خیبر پشتونخوا)، جنوبی پشتونخوا (پشتون بلوچ صوبے کے پشتون اضلاع) اور اٹک میانوالی پر مشتمل ایک وحدت میں اکٹھا کر کے ایک خودمختار صوبے ' پشتونستان' کا قیام ہے تاکہ یہاں کے بسنے والوں کی غالب اکثریت پشتون اسمبلی کے نمائندے اور حکومت منتخب کر سکیں۔ یہ عوامی منتخب حکومت مادری زبان پشتو کو تعلیم، تجارت اور سرکاری زبان قرار دے اور نتیجتاً پشتون قوم جدید علوم کے زیور سے آراستہ ہو کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے گی۔ مزید براں پشتو زبان کی ترویج کے لیے آپ نے اپنے رفیق کار پشتون قوم کے عظیم دانشور سائیں کمال خان شیرانی کو انگریزی ادب کی کئی شاہکار کتابوں کا پشتو زبان میں ترجمہ کرنے کی تاکید کی۔

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی ابتدا ہی سے قوم کی ابتر حالت اور پسماندگی کا سبب انگریز سرکار کو گردانتے تھے کیونکہ پرائی سرکار ہونے کے ناطے حکومت کو پشتون قوم کی فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہ تھا اور شاہی جرگے میں قوم کے نمائندوں کے نام پر اپنے کاسہ لیس خوشامدیوں اور گماشتوں کو اکٹھا کیا تھا۔ برٹش بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) کی پشتون اکثریت کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کے لیے مرکزی حکومت سے کہا جاتا تھا کہ یہاں کے باسی اس انتظام سے خوش ہیں اور یہاں ہندوستان کے دیگر حصوں کی مانند اصلاحات کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن مرد آہن عبدالصمد خان اچکزئی نے بدترین قسم کے جبر و استبداد اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ان مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف ان کے برصغیر چھوڑنے تک علم بغاوت بلند رکھا اور ہمیشہ لوگوں کی رائے سے منتخب حکومت کے لیے جدوجہد مسلسل کی اور ہر فورم پر اس جائز مطالبہ کے لیے آواز بلند کی۔

قیامِ پاکستان کے بعد بھی برٹش بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) کو سرزمین بے آئین رکھا گیا اور یہاں انگریز راج کے کالے قانون 'قانون جرائم سرحدی' یعنی (FCR) کو لاگو رکھا گیا اور یہاں کے بسنے والوں کو حق رائے دہی دینے کے بجائے انگریز کے ان ہی کاسہ لیس خوشامدیوں اور گماشتوں کو سرکاری جرگوں کے ذریعے یہاں کے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا۔ بنگالیوں سے برابری قائم کرنے اور مغربی پاکستان میں پشتون، بلوچ اور سندھی اقوام کا سیاسی اور معاشی استحصال کرنے کے لیے تمام صوبوں کو ون یونٹ میں شامل کیا گیا۔

ان جابرانہ اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی صف اول کے نمایاں کردار تھے اور اس کی پاداش میں قیام پاکستان کے فوراً بعد 6 برس تک پابند سلاسل رہے۔ پھر ایوبی مارشل لاء میں 14 برس قید کی سزا سنائی گئی اور 10 برس تک جیل میں رہے۔ آپ ایوبی مارشل لاء کے پہلے قید ہونے والے اور آخری رہا ہونے والے سیاسی قیدی تھے لیکن یہ تمام جبر و استبداد خان شہید کو عوامی ووٹوں سے منتخب حکومت اور پشتونستان کے مطالبے سے دستبردار نہ کرا سکے کیونکہ عوام کو جوابدہ حکومت ہی عوامی فلاح و بہبود اور مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہوتی ہے۔ شومئی قسمت، ناقابلِ برداشت مصائب اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد ون یونٹ ٹوٹنے کے وقت 'نیپ' کے منشور کے مطابق جب تاریخی، لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر قیام کا مرحلہ آیا تو اپنوں نے پارٹی کے منشور سے انحراف کرتے ہوئے منقسم پشتون قطعات کی پشتونستان کے نام سے وحدت کے بجائے تاریخی پشتون علاقے جنوبی پشتونخوا (برٹش بلوچستان) کو بلوچستان میں اور اٹک اور میانوالی کو پنجاب میں شامل کرنے پر رضامندی دکھا دی جس کے نتیجے میں آج تک پشتون وطن تقسیم ہے۔ جس کا اعتراف ایمل ولی خان نے 18 اگست 2020 کے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم 'آئیے پاکستان بناتے ہیں' میں کیا ہے۔

خان شہید کی زندگی کے چار مقاصد میں ایک مقصد اظہارِ صداقت ہے جس کا اکثر افراد دعویٰ کرتے ہیں لیکن جابر حکمران کے سامنے اور ذاتی مفادات کے باعث اظہار کرنے سے کتراتے ہیں لیکن خان شہید نے انگریز سرکار کے مطلق العنان افسران، قیام پاکستان کے بعد فوجی آمروں اور ان دونوں کے کاسہ لیس رجعت پسندوں، نوابوں، سرداروں اور ملکوں کے سامنے ببانگ دہل اظہارِ صداقت کرتے ہوئے ان کے مظالم، ناقص پالیسیاں، پشتون قوم اور دیگر محکوم اقوام کے سیاسی و معاشی استحصال، مذہب کا ذاتی مفادات کے لیے استعمال اور چند روپوں کے لیے اپنی قوم سے دغابازیاں بیان کی ہیں۔ اس مقدس عمل سے انگریز و پاکستان سرکار کی چالیس برس سے زائد قید کی سزا سنانے، ذہنی اذیتیں اور موت کا خوف بھی اس غیر متزلزل ارادی قوت رکھنے والی ہستی کو باز نہ رکھ سکے۔ بزدل دشمن نے بالآخر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے آپ کو شہید کر دیا لیکن خان شہید کے مقدس نظریات اب پوری پشتون قوم کی آواز بن چکے ہیں اور آپ کا تنہا شروع کیا گیا سفر اب پشتون قومی تحریک کی صورت میں ایک منظم سیاسی لشکر میں بدل چکا ہے جس کی پیشگوئی خان شہید نے لاہور کے عدالتی بیان میں یوں کی؛

'اگر میرا مقصد نیک ہے تو اس کے لئے میری جدوجہد یقیناً بار آور ہو گی۔ خدا نے چاہا تو وقت کا فیصلہ یقیناً میرے حق میں ہوگا۔ نیک مقاصد شاذ و نادر ہی خامیوں کے باعث ناکام ہوتے ہیں۔ اگر میں اس دنیا میں نہ بھی رہوں تو اس جھنڈے کو سربلند رکھنے کے لئے دوسرے پیدا ہوں گے۔ زندگی کا کارواں ہمیشہ رواں رہتا ہے'۔

مجروح سلطان پوری کا شعر بھی خان شہید کے اس عزم اور پختہ یقین کو بیان کرتا ہے؛

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کو جسمانی لحاظ سے شہید کرنے کے پچاس برس بعد بھی ملک کے سیاسی حالات سدھرنے کے بجائے گھمبیر سے گھمبیر تر ہو گئے ہیں۔ عوام کے ووٹوں کا احترام نہ کرنے کے سبب یہ ملک ایک بار ماضی میں ٹوٹ چکا ہے لیکن پھر بھی اس ملک کی مقتدرہ قوتوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی دھاندلی کے ذریعے انہی سدا بہار سیاستدانوں کو جو انگریز سرکار، پاکستان بننے کے بعد ہر فوجی آمر کی حکومت کا حصہ رہے ہیں، عوامی نمائندے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا جاتا اور منتخب وزائے اعظم کو وقتاً فوقتاً عدالتوں سے سزائیں دلوائی جاتی ہیں اور دیگر اقوام کے صوبے قائم ہونے کے باوجود پشتون وطن آج بھی ایک صوبے میں یکجا ہونے کے بجائے منقسم ہے جس کی وجہ سے پشتون اکیسویں صدی میں بھی شناخت سے محروم ہیں اور مختلف مشکلات کا شکار ہیں جس سے برادر قوم سے دوریاں بڑھ رہی ہیں۔

ملک کو درپیش حالیہ گھمبیر مسائل کا حل خان شہید کی مذکورہ بالا تعلیمات میں مضمر ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق یہاں بسنے والی اقوام کو ان کے مادر وطن کے ساحل و وسائل پر ان کا پہلا حق تسلیم کیا جائے اور ہر قوم کی شناخت کو تسلیم کرتے ہوئے تاریخی، لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جدید علوم کا حصول آسان اور یقینی بناتے ہوئے مادری زبان میں تمام اقوام کو تعلیم کا حق دیا جائے اور ابتدائی تعلیم جبری قرار دی جائے۔ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کی گول میز کانفرنس بلا کر اظہار صداقت کرتے ہوئے پچھلے 70 سالوں میں جو غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں ان کو تسلیم کیا جائے اور توبہ تائب ہو کر پارلیمان کو بالادست مانتے ہوئے آئندہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کا عہد کیا جائے۔ یہ سب کرنے کے بعد ملک میں صاف اور شفاف انتخابات منعقد کرا کر عوامی ووٹ سے با اختیار منتخب حکومت قائم کر کے جمہوریت کو پنپنے کا موقع دیا جائے۔

مزیدخبریں