ویسے تو ہم سب عمران خان کے دور میں جی رہے ہیں جس میں کئی معجزات کے ساتھ ایک معجزہ یہ بھی ہوا ہے کہ کونسلر سے بھی کم درجے کے لوگ وزیر اور سینیئر رہنما بنے ہیں اور جن کو ابھی رپورٹنگ کرنی چاہیے اور صحافت سیکھنی چاہیے وہ سینیئر تجزیہ کار اور سینیئر اینکر بن بیٹھے ہیں۔
بہت بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے محروم رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑا کمال یہ ہے کہ ایک خاص مقصد کے لئے بھرتی شدہ سیاستدان اور صحافی نما یوٹیوبر اور سوشل میڈیا کے کمانڈرز بہترین مراعات حاصل کرنے اور عمدہ مال کمانے کے بعد اب نظریاتی اور انقلابی بھی کہلوائے جا رہے ہیں۔
یہ عمران خان صاحب کا کمال ہے کہ وہ جس چیز کو چھو لیں، سونا بن جاتی ہے۔ بہرحال ہر کام کا ایک انجام ہوتا ہے اور ہر چیز کی ایک مدت معیاد ہوتی ہے جس کے بعد اس کا اختتام یقینی ہوتا ہے اور پروجیکٹ کی بھی بالآخر طبعی موت واقع ہونا بھی ایک لازم امر ہے۔
پاکستان میں جب سے تحریک انصاف کی حکومت کا جمہوری اور پارلیمانی انداز میں خاتمہ ہوا ہے، پاکستان کی صحافت میں 'توازن' کی فضا بہت زور پکڑ گئی ہے۔ جب بھی تحریک انصاف سے منسلک کسی شخص کی گرفتاری ہوتی ہے یا اس کے اوپر کوئی کیس بنتا ہے تو پاکستان کے صحافیوں کا ایک خاص طریقہ واردات ہوتا ہے۔ 'سیاسی اور نظریاتی اختلاف اپنی جگہ' سے شروع کرتے ہیں اور پھر بہترین انداز میں توازن لانے کا اخلاقی فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں اس واردات میں ایک نیا طریقہ کار آ گیا ہے۔ اب کہا جاتا ہے 'یہ گرفتاریاں اور کیس اس دور میں بھی غلط تھے اور اس دور میں بھی غلط ہیں'۔ ساری صحافت ادھر ہی گھوم رہی ہے۔ ایسا کرنے سے سوشل میڈیا پر ان کے لائکس اور ویوز میں بہت اضافہ ہوتا ہے اور نیازی فورس کے شر سے بھی بچ جاتے ہیں۔ ایک 'غیر جانبدارصحافی' ہونے کا اعزاز بھی مل جاتا ہے۔ ایک ٹکٹ میں اتنے فوائد مل رہے ہوں تو کون کمبخت اس نیکی سے محروم رہے گا؟
صحافی کا کام توازن پیدا کرنا نہیں ہے اور نہ ہی بے موقع 'احساس' کے نام پر خاص جماعت یا نظریے کو خوش کرنا ہے۔ صحافی کو اس بات کی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کن کارروائیوں سے غیر جانبدار نما ہو سکتا ہے۔
مگر اس ملک میں جہاں عدلیہ بھی آئین اور قانون کی بجائے اپنے ضمیر اور 'توازن' کی سیاست کرتی ہے وہاں بیچارے صحافیوں سے کیا توقع ہو سکتی ہے؟ اس وقت آنکھوں کے سامنے سے جہانگیر ترین کا کیس گزر رہا ہے جب انتہائی شعبدہ باز قسم کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے توازن کے لئے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے دیا اور عمران خان کو صادق اور امین قرار دیا۔
پچھلے دور میں سب سے بڑا بیچارا جہانگیر ترین رہا ہے۔ نااہل بھی ہوئے، بدنام بھی ہوئے، پارٹی کے عہدے سے بھی گئے۔ حالانکہ سب سے زیادہ پیسہ لگانے والے اور سیاسی آوارہ گردوں کو عمرانی ٹولے میں شامل کرنے میں پیش پیش تھے۔
پی ٹی آئی کے دوست کہتے ہیں انہوں نے بزدار کے ذریعے سے چینی کی مد میں کچھ مال کمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ جہانگیر ترین کو ہر کام معاف تھا مگر مرشد کی شان میں گستاخی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس کی سزا تو بہرحال ملنی تھی۔ جہانگیر ترین کی حالت پہ محسن نقوی کا ایک شعر یاد آتا ہے؛
صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے، مفت میں گھر ویران ہوا
پاکستان کے توازن میں ماہر صحافی یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ دونوں ادوار میں بننے والے کیسز اور ہونے والی گرفتاریوں کے سیاق و سباق میں کیا فرق ہے اور دونوں ادوار کے سیاسی ماحول میں کیا فرق ہے۔ تحریک انصاف کا دور حقیقی معنوں میں جمہوریت اور انقلاب کے نام پہ سیاسی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا دور تھا۔ سیاست میں کوئی قسمت والا شخص ہو گا جو اس دور میں اپنا گریبان بچا سکا ہو۔ آصف علی زرداری، فریال تالپور، مریم نواز، خورشید شاہ، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، شاہد خاقان عباسی، حنیف عباسی، رانا ثناءاللہ اور صحافیوں میں مرتضیٰ سولنگی سے لے کر حامد میر تک، اسد علی طور، مطیع اللہ جان، ابصار عالم، سبھی زیرعتاب آئے۔ نیب، پولیس، ایف آئی اے اور انٹی نارکوٹکس کے محکموں کو اپنے ذاتی انتقام کے لئے استعمال کیا گیا۔ سیاسی رہنماؤں کے اوپر کیس بنوا کر اور ان پر ستم ڈھا کر اس وقت کے وزیر اعظم سے لے کر کئی فواد چودھریوں اور شیخ رشیدوں نے سر عام ان انتقامی کارروائیوں پر تمسخر اڑانے کے ساتھ ساتھ فخر بھی کیا۔
زمینی حقائق کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں تحریک انصاف سے وابستہ سیاسی اور صحافی افراد نے جو زبان استعمال کی ہے اور جو غیر قانونی کرتب کیے ہیں، اگر ان کے اوپر تحریک انصاف کے دور والا فارمولا استعمال کیا جائے تو اب تک شیخ رشید، فواد چودھری، فرخ حبیب اور عمران ریاض سمیت ان کے چیئرمین عمران خان کو چھٹی کا دودھ یاد آ چکا ہو، مگر ان کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا کیوں کہ ان کو آج بھی قانون، عدالت اور اداروں کی نظر میں خاص استحقاق حاصل ہے۔
عمران خان، شیخ رشید اور فواد چودھری نے اس ملک میں ببانگ دہل آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ ان لوگوں کے سروں سے اسٹیبلشمنٹ کا دست شفقت ہٹنے کی دیر تھی اور یہ اپنی اصلیت پہ آ گئے۔ یہ گروہ اس طرح کی حرکتیں کر رہا ہے کہ جیسے ان کے بعد نہ تو پاکستان رہے گا اور نہ ہی کوئی نئی نسل پیدا ہو گی جس کو اس ملک اور ریاست کی ضرورت ہو گی۔
دو، دو دن جیلوں میں اپنے کردہ گناہوں کی سزا نہیں بھگت سکے اور ٹی وی پر پوری قوم کے سامنے ٹسوے بہاتے ہیں۔ پھر گڑھی خدا بخش کے ان شہیدوں کی قربانیوں کا کیا عالم ہوگا جن کا خون کبھی کوٹ لکھپت کی جیل میں، کبھی پیرس کے ہوٹل میں، کبھی کلفٹن کے روڈ پر، کبھی لیاقت باغ میں، کبھی کارساز میں اور کبھی لاہور کی سڑکوں پر بے جرم و خطا اور مسلسل بہایا گیا۔ جتنا موجودہ دور کے سیاسی اور انقلابی نما افراد کا جمہوریت، قربانیوں اور انٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا واویلا سنتے ہیں اتنا ہی پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور ان کی لیڈرشپ کی عزت دل میں بڑھ جاتی ہے جنہوں نے حقیقی معنوں میں اس ملک میں جمہوریت، آئین اور عوام کے لئے اپنی زندگیاں قربان کر دیں۔ احمد فراز نے شاید اسی موقعے کے لئے کہا تھا کہ
ہم نے اک عمر بسر کی ہے غم یار کے ساتھ
میر دو دن نہ جیے ہجر کے آزار کے ساتھ
پاکستان کے صحافیوں سے التجا ہے کہ ریٹنگ کی بھی اپنی اہمیت ہے مگر کچھ تھوڑا سا قوم اور ملک اور اپنے پیشے سے وفا کرتے ہوئے دونوں ادوار کے کیسز اور گرفتاریوں کو ایک ہی پلڑے میں نہ رکھیں۔ تحریک انصاف کے دور کی بیشتر گرفتاریاں سیاسی انتقام سے وابستہ تھیں جب کہ حالیہ گرفتاریاں پہلے سے ہی سیاسی بحران اور دہشت گردی سے خون آلود ریاست میں مزید خون اور فساد کو روکنے کی کوشش ہیں۔ پاکستان جس طرح کے سیاسی اور معاشرتی حالات سے گزر رہا ہے، تمام سیاسی جماعتوں، تمام حکومتوں اور ان کی کارروائیوں کو ایک ہی لا ٹھی سے ہانکنا مناسب اور منصفانہ عمل نہیں ہے۔