الیکشن مینجمنٹ سسٹم (ای ایم ایس) شفاف انتخابات یقینی بنائے گا؛ ماہرین

پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے مطابق اگر الیکشن مینجمنٹ سسٹم سے بھی کوئی بہت اچھا سسٹم ہو اور اس سسٹم کو بٹھانے والے بھی اتنے ہی طاقتور ہوں جتنے 2018 میں تھے تو الیکشن کمیشن کا موجودہ سسٹم بھی ڈاؤن ہو سکتا ہے۔ الیکشن مینجمنٹ سسٹم میں کوئی خرابی نہیں ہے بلکہ یہ نظام بہت مناسب لگ رہا ہے۔

08:31 PM, 6 Feb, 2024

منیر باجوہ

انتخابات سے باخبر ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان کے الیکشن مینجمنٹ سسٹم پر اعتراض اٹھانے والے اس سسٹم کے نفاذ سے قبل خامیوں کی نشاندہی کرتے، ای ایم ایس کو بٹھانے والے اگر اتنے ہی طاقتور ہوں جتنے 2018 میں تھے تو ای ایم ایس بھی ڈاؤن ہو سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات کے روز انٹرنیٹ اگر بند ہو بھی گیا تو الیکشن کمیشن کے پاس متبادل نظام موجود ہے۔

صوبائی الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر ایم آئی ایس بابر ملک کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا الیکشن مینجمنٹ سسٹم دو سے تین طریقوں سے چلتا ہے، یہ نظام آن لائن اور آف لائن طریقے سے بھی چلتا ہے اور اگر کسی وجہ سے آن لائن سسٹم میں کوئی مسئلہ آ جاتا ہے تو یہ ای ایم ایس خود بخود آف لائن طریقے پر منتقل ہو جاتا ہے۔ اس طرح کام رکتا نہیں ہے اور مطلوبہ ہدف حاصل ہو جاتا ہے۔ اس سسٹم کا مقصد ریٹرننگ آفیسر نے جو فارم نمبر 47 ( غیر حتمی نتیجہ) بنانا ہوتا ہے، وہ کام اس سسٹم سے چلتا رہے گا۔ قانون کے مطابق فارم 47 جو ایک مقررہ وقت میں جمع کروانا ہوتا ہے اس کو جمع کروانے میں بھی کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک سے زیادہ اپنی حکمت عملی بنائی ہوتی ہیں تا کہ ریٹرننگ آفیسر کا کام نہ رکے۔ اس کام کے لئے پہلا آپشن ای ایم ایس ہے، دوسرا آپشن الیکشن مینجمنٹ سسٹم کا بیک اپ ہے۔ اس کے علاوہ بھی الیکشن کمیشن کے پاس مزید حکمت عملی ہوتی ہے جس سے الیکشن کمیشن کا انتخابات کے روز کام نہیں رکتا اور ای ایم ایس ان تمام معامات کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر انٹرنیٹ بند ہوا بھی تو الیکشن مینجمنٹ سسٹم آف لائن طریقے سے چلے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرنیٹ کے بھی مختلف کنکشن ہوتے ہیں تا کہ انتخابات کے روز نتائج کو بر وقت ایک جگہ اکٹھا کیا جا سکے۔ اگر لوگوں کے تحفظ کے لئے انٹرنیٹ بند بھی کیا جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کے پاس ای ایم ایس کو چلانے کے مختلف آپشنز موجود ہیں جس سے رزلٹ نہیں رکے گا۔

پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے مطابق اگر الیکشن مینجمنٹ سسٹم سے بھی کوئی بہت اچھا سسٹم ہو اور اس سسٹم کو بٹھانے والے بھی اتنے ہی طاقتور ہوں جتنے 2018 میں تھے تو الیکشن کمیشن کا موجودہ سسٹم بھی ڈاؤن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن مینجمنٹ سسٹم میں کوئی خرابی نہیں ہے بلکہ یہ نظام تو بڑا مناسب لگتا ہے جبکہ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم بھی مناسب ہی لگتا تھا لیکن موجودہ ای ایم ایس میں الیکشن کمیشن نے مزید سیفٹی متعارف کروائی ہے کیونکہ اگر انٹرنیٹ کام نہیں بھی کرتا تو پریزائڈنگ آفیسر مینول طریقے سے بھی رزلٹ ریٹرننگ آفیسر کو پہنچا سکتا ہے۔ اس لئے کسی بہت بڑی خرابی کی تو کوئی امید نہیں ہے۔

احمد بلال محبوب کا مزید کہنا تھا کہ ای ایم ایس کا مقصد یہی ہے کہ ذرا بہتر انداز میں رزلٹ اکٹھا ہو جائے گا اور اگلے روز 10 بجے تک رزلٹ پہنچانے کا حتمی وقت مقرر ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ عام انتخابات کے نتائج اگلے روز 10 بجے کی بجائے رات 2 بجے تک بھی اکٹھے ہو جائیں گے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو اگلے روز دن 10 بجے تک نتائج کا اعلان ہو جائے گا۔ انہوں نے پھر اس بات کا اظہار کیا کہ ای ایم ایس کی وجہ سے کوئی بڑی خرابی نہیں ہو گی اور یہ سسٹم کارکردگی بہتر بنانے کیلئے نافذ کیا گیا ہے۔

الیکشن قوانین پر گہری نظر رکھنے والے آئینی ماہر مبین الدین قاضی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ای ایم ایس کا الیکشن قوانین اور رولز سے تو کوئی تعلق نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے رزلٹ کو اکٹھا کرنے کیلئے یہ سسٹم بنایا ہے تاکہ بروقت نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ سنا ہے ریٹرننگ افسران نے ای ایم ایس میں پولنگ سکیم خود بخود تبدیل کرنے کی شکایات الیکشن کمیشن کو کی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ای ایم ایس کا پاسورڈ کسی اور کے پاس ہے اور وہ اس میں کچھ تبدیلیاں کر رہا ہے یا پھر سسٹم خود بخود کچھ تبدیلیاں کر رہا ہے۔ اس کی گہرائی میں تو آئی ٹی ماہرین ہی جا سکتے ہیں کہ اس سسٹم کی کمزوریاں کیا ہیں، ہم نے تو اتنا ہی دیکھا ہے کہ ریٹرننگ آفیسرز رزلٹ دے رہے ہیں اور اس کی اپڈیٹس آ رہی ہیں۔

2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس ڈاؤن ہو جانے کے واقعہ کے بعد ای ایم ایس کے مستقبل میں مؤثر انداز میں چلنے یا نہ چلنے اور قانونی داد رسی میسر ہونے کے سوال پر مبین الدین قاضی ایڈووکیٹ نے کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن ریکارڈ کو بطور ثبوت دیکھا جاتا ہے۔ انتخابی عذر داری دائر کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ الیکشن کے نتائج کس طرح اکٹھے کئے گئے۔ یہ سسٹم تو الیکشن کمیشن نے اپنی سہولت کیلئے نافذ کیا ہے تا کہ نتائج کمیشن کے پاس بروقت موصول ہو جائیں اور بعد میں گڑبڑ ہونے کے امکانات معدوم ہو جائیں۔ پریزائڈنگ آفیسرز تمام ریکارڈ ریٹرننگ آفیسر کو جمع کروا دیتے ہیں اور بطور قانون دان ہم قانونی چارہ جوئی کی طرف جاتے ہیں تو ریٹرننگ آفیسر والا ریکارڈ عدالت میں طلب کروایا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تو سیاسی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ جب الیکشن کمیشن ای ایم ایس کو تجرباتی طور پر چیک کر رہے تھے تب سیاسی جماعتیں اپنے آئی ٹی ماہرین کے ساتھ الیکشن کمیشن جاتیں اور معائنہ کرتیں۔ اس کے بعد نشاندہی کرتیں کہ اس سسٹم میں یہ خامیاں ہیں، یا یہ سسٹم غیر محفوظ ہے یا اس سسٹم میں کوئی خطرات موجود ہیں۔

الیکشن پالیسی ایڈوائزر فوزیہ یزدانی نے کہا کہ ای ایم ایس میں کسی پریزائڈنگ آفیسر کو کوئی تصویر اپ لوڈ نہیں کرنی بلکہ انہوں نے ایپلی کیشن میں سے تصویر لینی ہے جس سے اس تصویر کی تفصیلات میں جیو ٹیگ آ جائے اور کسی پرائیڈنگ آفیسر کو انتظار نہیں کرنا کہ تصویر اپ لوڈ نہیں ہوئی بلکہ وہ تصویر لے کر ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں آ جائیں گے جہاں وہ تصویر بھی دکھا سکیں اور اس کے علاوہ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں تین درجاتی انٹرنیٹ کی سہولت ہے اور کچھ جگہوں پر سیٹلائٹ کے ذریعے رابطوں کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس بار 2018 والا معاملہ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

فوزیہ یزدانی نے پاکستان کے الیکشن مینجمنٹ سسٹم کا دیگر ممالک کے ساتھ تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ کسی سسٹم کی کارکردگی اس کی آبادی پر منحصر ہوتی ہے اور پاکستان پانچویں بڑی جمہوریت ہے تو یہ اتنا آسان نہیں۔ جہاں ہمیں لگتا ہے کہ الیکشن مینجمنٹ سسٹم بہترین ہے تو وہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ پاکستان کا الیکشن مینجمنٹ سسٹم تکنیکی اعتبار اور الیکشن کمیشن کی استعداد کار کے اعتبار سے سادہ اور قابل عمل ہے۔ اسی لئے امید ہے کہ اس بار الیکشن نتائج کے بارے شکایات کم ہوں گی۔ الیکشن نتائج کے بعد ای ایم ایس پر اگر کوئی اعتراض اٹھاتا ہے تو اسے چاہیے کہ جب یہ نظام بنایا جا رہا تھا تب آتے اور کہتے کہ اس سسٹم میں فلاں خامیاں ہیں۔ اگر کسی امیدوار کا پولنگ ایجنٹ فارم 45 کی تصویر نہیں لے رہا تو پھر وہ اپنی غلطی الیکشن کمیشن پر نہیں ڈال سکتا۔ پھر امیدوار کے الیکشن ایجنٹ کا کردار انتہائی اہم ہو گا جس نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں فارم 46 اور 47 کی صورت میں نتائج دیکھنے ہیں۔ لہٰذا نتائج کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کے بجائے امیدوار پر زیادہ ہو گی۔

مزیدخبریں