کپتان کی ’کرپشن فلم‘ پِٹ گئی

04:51 PM, 6 Jan, 2021

زین سہیل وارثی
یہ بھی حقیقتاً ایک نا تجربہ کار ٹیم تھی مگر ان کی کارکردگی بھی آپ سے بہتر تھی۔ آپ کی حکومت تو ان سے بھی گئی گزری ہے۔

لوگ اس پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے بعد انقلاب دیکھ رہے ہیں اور میں اس میں مارشل لاء کی تاریک رات دیکھ رہا ہوں، اللہ کرے میں غلط ثابت ہوں، کیونکہ 1970ء کی دہائی میں بھی اسلام کا چورن بہت بکنا شروع ہو گیا تھا اور آج کل بھی صوفی ازم پر کافی کہانیاں چل رہی ہیں اور دھڑا دھڑ بک رہی ہیں۔ طاقت کا مرکز تبدیل ہو رہا ہے، طاقت مغرب سے مشرق کی جانب حرکت کر رہی ہے، عالمی وبا اور اسکے اثرات سے رفتار تیز ہو گئی ہے۔


جب بھی دنیا میں طاقت کا محور تبدیل ہوا ہے وطن عزیز میں میرے عزیز ہم وطنو! کی صدا لگی ہے۔


ملکی صورتحال 1970ء جیسی ہی ہے مگر 1970ء کے پاکستان اور آج کے پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے، پاکستان اس وقت معاشی لحاظ سے اس قدر زبوں حالی کا شکار نہیں تھا، نیز مشرق وسطی اور چین کے ساتھ ہمارے تعلقات اتنے پیچیدہ نہیں تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو اس وقت حکمران تھے، تمام تر اختلافات اپنی جگہ پر مگر خارجہ پالیسی کے محاذ پر قائد عوام کو عبور حاصل تھا، ٹیم انکی بھی ناتجربہ کار تھی، انھی کی نا تجربہ کار پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج بیرونی امداد کے رحم و کرم پر ہے، وہ چاہے مختلف ممالک سے ملتی ہو یا بیرون ملک پاکستانی ترسیلات زر کی صورت دیتے ہوں۔



وزیراعظم عمران خان صاحب نے حالیہ دنوں میں ذرائع ابلاغ کی تنقید کے بعد بالآخر تسلیم کرنا شروع کر لیا ہے کہ ان کے کون سے فیصلہ غلط تھے۔ بنیادی طور پر میرے کپتان اس غلط فہمی سے حقیقی دنیا کی طرف چل پڑے ہیں، جس میں یہ اقوال زریں مشہور ہیں کہ لوگ ٹیکس اس لئے نہیں دیتے کہ حکمران چور اور بدعنوان ہیں، اوپر بندہ ایماندار ہو تو تمام معاملات ٹھیک ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ٹیکس کا نظام کیوں ٹھیک نہیں ہو سکتا حالیہ دنوں میں شبر زیدی نے اس پر روشنی ڈال دی ہے۔ 200 ماہرین کی ٹیم تیار ہے، حکومت میں آتے ہی وہ سب محکموں کی مرمت شروع کر دیں گے اور نا جانے کیا کیا، بیرون ملک پاکستانی میرے کپتان کے کہنے پر پیسوں کی بارش کر دیں گے وغیرہ وغیرہ۔



اگر حقیقی طور پر ان تمام باتوں کا تجزیہ کیا جائے تو آپ اس بات کا اندازہ میرے کپتان کے پچھلی دفعہ حزب اختلاف میں پارلیمان کو دئیے گئے تقدس سے لگائیں۔ میرے کپتان اور میرے محبوب قائد نے پارلیمان کے تقدس کو جس طرح پامال کیا ہے، اتنا تو شوکت عزیز جیسے وزیراعظم نے بھی نہیں کیا۔ پچھلی حکومتیں کم از کم کورم ہی پورا رکھتی تھیں مگر یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، اول تو تمام اہم محکمہ غیر منتخب افراد کے پاس ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو جوابدہ  نہیں سمجھتے اور دوسرا ان تمام کا پرانا تعلق کسی نا کسی طرح سے پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے، اور یہ سب مقتدر حلقوں کے بھی نمائندے ہیں۔


نام نہاد قائد عوام جناب ذوالفقارعلی بھٹو کی ٹیم نئی تھی، یا نام نہاد کپتان جناب عمران خان کی یہی موضوع بحث ہے۔ 20 دسمبر 1971ء کو جب ذولفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔ تو اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر حیات محمد خان شیرپاو شہید کی عمر 31 سال تھی. پنجاب کے گورنر جناب غلام مصطفی کھر کی عمر 32 سال سندھ کے جناب ممتازعلی بھٹو بمشکل 30 سال کے تھے. جناب عبدالحفیظ پیرزادہ 27 یا 28 کے تھے. جناب مولانہ کوثر نیازی لگ بھگ 40 اور بلکہ خود قائد عوام بھٹو مرحوم کی عمر 43 سال تھی. اس کے علاوہ حنیف رامے، ملک حاکمین، محمد حنیف خان، عبد الصمد خان، سیف الرحمان کیانی، افتخار احمد تاری،  خورشید حسن میر، ڈاکٹر غلام حسین، عبدالوحید کٹپر، غلام مصطفی جتوئی، میر رسول بخش تالپور، جام صادق علی، رانا حنیف، میاں محمود علی قصوری،  ڈاکٹر مبشر حسن، جلال الدین عبدالرحیم، کس کس کے نام لیں۔ ان میں سے جے اے رحیم، جام صادق، محمود علی قصوری، ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ محمد رشید کو کسی حد تک تجربہ کار اس لحاظ سے کہا جا سکتا تھا کہ یہ سب باقی اول الذکر افراد سے عمر رسیدہ تھے۔ یہ تمام لوگ ناتجربہ کار اس لحاظ سے تھے کہ یہ قیام پاکستان کے بعد اس پہلی اسمبلی کا حصہ بنے تھے جو ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی تھی۔ اس سے پہلے یا تو بی ڈی سسٹم ھوتا تھا یا معتبر خاندانوں کے خانوادہ پارلیمان میں آتے تھے۔ اس سب کے باوجود بھٹو صاحب کی پارٹی پھر بھی کسی حد تک کارکردگی دکھا سکی، پی ٹی وی، پاکستان سٹیل مل، کہوٹہ لیبارٹری، اسلامی سربراہی کانفرنس، عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا اور چین کے ساتھ خارجہ پالیسی میں بہتری لانا، 90000 فوجی قیدیوں کی واپسی، اور 5000 مربع میل رقبہ کی واپسی ان کے اہم کام ہیں جنھیں ہم کسی لحاظ سے نظر انداز نہیں کر سکتے۔



اب میرے کپتان کی ٹیم کی طرف بھی نظر دوڑائیں شاہ محمود قریشی، شیخ رشید احمد، عبدالرزاق داود، عبدالحفیظ شیخ، ڈاکٹر بابر اعوان، ندیم افضل چن، غلام سرور خان، زبیدہ جلال، سردار یار محمد رند، خسرو بختیار، شفقت محمود، طارق بشیر چیمہ، فہمیدہ مرزا، سید فخر امام، عمر ایوب خان، محمد میاں سومرو، اعظم خان سواتی، نورالحق قادری، اور فواد چوہدری ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کی سیاست کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، سبھی پرانے چاول ہیں، اکثر چاول تو 60 سال پرانے ہیں اور چند ایک اتنے پرانے ہیں کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف کی دیگ میں دم پر ہیں۔ اب ان کی کارکردگی کی بات کریں تو وہ تو اوج ثریا پر ہے، یکساں تعلیمی نظام نافذ ہو چکا ہے، ڈالر کی قدر اڑھائی سال میں کم ہو کر 100 ہو گئی ہے، تھانہ و پٹواری کا نظام مکمل تبدیل ہو چکا ہے، بلدیاتی نظام مکمل طور پر نافذ ہو چکا ہے، تمام چور ڈاکو اور لٹیرے حکمرانوں سے نیب نے اتنے پیسے حاصل کر لئے ہیں کہ ملک پاکستان کے ہر بچہ کا وظیفہ لگ چکا ہے، 50 لاکھ گھر تعمیر ہو چکے ہیں اور مزید 50 لاکھ کی تعمیر جاری ہے، تیل و گیس کے ذخائر اتنے دریافت کئے جا چکے ہیں کہ اب ہمیں عرب بھائیوں کی باتیں سننے کی ضرورت نہیں، کشمیر آزاد ہو چکا ہے اور دہلی پر پرچم لہرانے کے لئے مہم جوئی کی تیاری ہے، 1 کروڑ نوکریاں دی جا چکی ہیں مزید 2 کروڑ پر کام جاری و ساری ہے، بیوروکریسی کے تمام کس بل نکال دئیے گئے ہیں، گورنر ہاوس، وزیراعلی سیکریٹیریٹ اور وزیراعظم ہاوس کو اعلی ترین جامعات میں تبدیل کیا جا چکا ہے، پاکستان اب جی ایٹ کا رکن بننے کے لئے پر تول رہا ہے۔ اتنا سچ لکھنے کے بعد میرا قلم بھی جواب دے گیا ہے، باقی کا سچ اگلی تحریر کے لئے محفوظ کر لیتے ہیں۔
بھٹو صاحب اور عمران خان کی شخصیت میں کئی ایک خوبیاں مشترک ہیں ان کی بھی جاگیردارانہ ذہنیت تبدیل نا ہوئی اور خان صاحب بھی ابھی تک ستاروں کی دنیا سے باہر نہیں آئے، اسی لئے وہ (بھٹو) کہا کرتے تھے کہ اور کیا کروں یہ کہتے ہیں کہ عوام خودکشی کریں تو میں کیا کروں۔


میری تو تیاری ہی نہیں تھی، جس کا حالیہ دنوں میں انھوں نے جواب یہ دیا ہے کہ اس کا مطلب تھا کہ ہمیں بریفنگ دی جانی چاہیے امریکہ کی طرح، میرے کپتان یہ بریفنگز قائمہ کمیٹیوں میں جانے اور پارلیمان کے اجلاس میں شرکت کرنے سے ملتی ہیں۔ کبھی پارلیمان میں حاضری لگائیں سب معلومات مل جائیں گی، بقول آپ کے آپ تو متشابہ کیبنٹ Shadow Cabinet کے خوبصورت خواب بیچا کرتے تھے، پھر شاید آپ عوام الناس کو ارطغرل کی جگہ ان رپورٹس کو پڑھنے کا مشورہ دیں۔


بھٹو مرحوم بھی وزراء کی جاسوسی کرواتے تھے، میرے کپتان بھی یہی کر رہے ہیں۔ بھٹو مرحوم بھی سیاسی مخالفین کو القابات سے نوازتے تھے، میرے کپتان تو اس سے بھی دو قدم آگے ہیں اور باقاعدہ نقل اتارتے ہیں۔ بھٹو نے بھی حزب اختلاف کو لٹکائے رکھا تھا میرے کپتان نے بھی مذاکرات نا کرنے کی قسم کھائی ہے اور این آر او نہیں دیاا، بھٹو بھی ایمپائر کو ساتھ ملا کر کھیلنے کے عادی تھے، کپتان بھی ایمپائر کے آشیرباد سے آئے ہیں، بھٹو کے ساتھ بھی اسٹیبلشمنٹ کھڑی تھی کپتان کے ساتھ بھی اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہے۔ بھٹو کے جیالے تھے، کپتان کے کھلاڑی ہیں، بھٹو کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے دغا دیا تھا، خان صاحب کو بھی دغا ہی دیا جائے گا۔ اس زمانے میں بھی نو ستارے اکٹھے کر کے ایک کہکشان تشکیل دیا گیا تھا، اس دفعہ 11 ستارے ہیں۔ بھٹو بھی دیوتا تھے، خان صاحب بھی دیوتا ہیں۔ لیکن ایک چیز خان صاحب شاید نا کر پائیں بھٹو نے معافی نامہ نہیں لکھ کر دیا تھا، خان صاحب اتنا دم خم نہیں رکھتے کیونکہ خان صاحب نے تو کبھی جیل بھی نہیں کاٹی ہاں نظر بندی برداشت کی ہے جنرل مشرف کے دور میں، اس میں بھی خان صاحب روپوش ہو گئے تھے۔


خیر ہمیں کیا جن لوگوں نے کپتان کی ڈرائیونگ کے امتحان کا انتظام کیا تھا، وہ کپتان کا انتظام بھی کر لیں گے، اس کے لئے انھوں نے محمد علی درانی جیسے زیرک سیاستدان کی خدمات حاصل کر لی ہیں اور دوسری طرف سے جواب الجواب آیا یے کہ میں جیل میں بیٹھا کچھ نہیں کر سکتا، باہر نکلوں گا تو آپ کے آشیرباد سے شاید کچھ ہو جائے۔



سمجھدار کے لئے اشارہ ہی کافی ہے، کارکردگی والی فلم پر توجہ دیں میرے کپتان، کیونکہ کرپشن والی فلم اب نہیں چلے گی، اور جیسے ہی اشارہ سبز ہوا حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ جلد یا دیر کچھ ہونے والا ہے کیونکہ اب میرے کپتان بھی این آر او کی گردان زیادہ دہرا رہے ہیں، دوسرا وہ کہتے ہیں نا کہ نقارہ بجنے سے پہلے صدائیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔



مزیدخبریں