قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں خط پیش کیا گیا جس کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے ڈی جی نیب کو نئے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر (پی آئی او) کے اختیارات دئیے جس کے بعد ڈی جی نیب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو مستقبل میں بریفنگ دیگا۔
تاہم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب کی جانب سے لکھے گئے خط کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے موقف اپنایا کہ اگر وزیر اعظم یا وفاقی کابینہ ڈی جی نیب کو یہ اختیارات دیتی تو پھر یہ خط قومی اسمبلی کو کابینہ ڈویژن سے موصول ہونا تھا۔
واضح رہے کہ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے گذشتہ اجلاس میں حامی بھری تھی کہ وہ کمیٹی کو نیب کی جانب سے ریکور ہونے والے 823 ارب روپے پر ان کیمرا بریفنگ دینگے مگر آج وہ کمیٹی میں پیش نہیں ہوئے۔
ڈی جی نیب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے مجھے پی آئی او کے اختیارات دئیے گئے ہیں جس کے بعد چئیرمین نیب کی نمائندگی میں نے کرنی ہے۔ ایک سوال کے جواب پر کہ کیا نمائندگی سے متعلق فیصلہ کب ہوا؟۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ تین چار دن پہلے کابینہ کی جانب سے یہ فیصلہ آیا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ممبر نور عالم خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چئیرمین نیب اور ادارہ وزیر اعظم عمران خان کو بدنام کر رہا ہے۔ وزیر اعظم یا وفاقی کابینہ نے ایسے کوئی اختیارات کے ہدایات جاری نہیں کیں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ممبر سینیٹر شیری رحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ اجلاس میں چیئرمین نیب نے رکوریز پر پی اے سی کا ان کیمرا بلانے کی درخواست کی تھی کیونکہ ہم نے اعداد و شمار مانگے تھے۔ چیئرمین نیب نے کہا تھا وہ خود آ کر انھیں پیش کریں گے لیکن وہ نہیں آئے اور ابھی ہمیں ایک لیٹر دکھایا گیا ہے کہ پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر بدل گئے ہیں۔
شیری رحمان نے مزید کہا کہ پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر کے فیصلے نیب کریگی۔ کیا احتساب اور جوابدہی صرف سیاستدانوں کے لئے ہے کیونکہ سیاستدانوں کے لئے تو نیب ان کیمرا اجلاس نہیں کرتا اور تفتیش اور ریفرنس سے پہلے باتیں شروع کی جاتی ہیں۔
چیئرمین نیب کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر ردعمل دیتے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر نے کہا کہ پی اے سی کا اجلاس احتجاج ملتوی کر دیا گیا ہے اور چئیرمین نیب کو دوبارہ طلب کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ چئیرمین نیب کو آنا چاہیے تھا مگر وہ نہیں آئے لیکن ہم ان کو خط لکھ رہے ہیں اور نیب کی جانب سے لکھے گئے خط کی تفصیلات سیکرٹری کابینہ سے مانگی جائے گی کہ واقعی وزیر اعظم نے ایسی کوئی ہدایات جاری کی ہیں کہ نہیں۔
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مزید کہا کہ ڈی جی نیب نے ان کو کچھ حساس چیزیں بتائیں جس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ اس اجلاس کو ان کیمرہ رکھیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ڈی جی نیب نے ان کو بریفنگ میں بتایا کہ سیاست دانوں سے اب تک صرف 50 کروڑ برآمد ہوئے ہیں۔