انہوں نے یہ بات اردو نیوز کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ اذیتوں او مصبتیں جھیلنے والے ہمارے کچھ نوجوان آج پہاڑوں پر جا چکے ہیں۔ میرا ان سے لاکھ اختلاف ہو لیکن اس کے اسباب تلاش کرنے چاہیں کیونکہ پہاڑوں پر وہ بریانی اور قورمہ کھانے نہیں گئے۔ ان کے پیچھے بچے، خاندان اور والدین ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ ان کے ساتھ بات کرکے ان کے ساتھ بیٹھ کر انہیں عزت نہیں دے سکتے؟
ان کا کہنا تھا کہ ہم قانون ہاتھ میں لے سکتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں کررہے۔ ہم نے حکام پر واضح کر دیا ہے کہ اگر مچھلی کا غیر قانونی شکار نہ روکا گیا تو ہم خود اسے روکیں گے۔
مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کو موقع دے رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹرالرز مافیا کو سمندری حیات کی نسل کشی سے سے روکیں۔ ہم کوئی غیر آئینی مطالبہ نہیں کر رہے ہیں۔
بلوچستان کے سیاسی حالات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اشارے ملتے ہیں پیپلز پارٹی میں جاؤ سب وہاں چلے جاتے ہیں، پھر اشارے ملتے ہیں مسلم لیگ ن میں جاؤ سب وہاں چلے جاتے ہیں، پھر کہتے ن لیگ کی بھی ضرورت نہیں، پی پی کی بھی نہیں پھر ’باپ‘ بنا لیتے ہیں، کل کو کوئی ’ماں‘ بنا لے گا، لوگ وہی، چہرے وہی ہیں۔
انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کیساتھ معاہدے کے نکات میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل تھا، اب تک 700 چیک پوسٹیں ختم کی گئی ہیں۔ اس معاملے پر پیشرفت تسلی بخش ہے لیکن سمندر میں فشنگ ٹرالرز کا مسئلہ اب بھی باقی ہے۔