https://twitter.com/UsamaKhawar/status/1478669051991887872
جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ کے لئے نامزد
6 جنوری کی شام جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے 4 کے مقابلے میں 5 ووٹوں سے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری منظور کر لی۔ ان کے نام پر بار کی جانب سے مخالفت کی جا رہی تھی اور اس کی وجوہات متعدد تھیں۔ تاہم، جو اعتراض سب سے بڑھ کر سامنے آیا تھا اور جس کی وجہ سے ان کی تقرری ستمبر 2021 میں 4 کے مقابلے میں 4 ووٹ سے رک گئی تھی وہ یہ تھی کہ ان سے سینیئر ججز موجود تھے اور 1996 کے الجہاد ٹرسٹ کیس کے بعد سے ججز کی تقرری میں سنیارٹی کے اصول کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ جوڈیشل کمیشن اور بار دونوں میں اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے افراد کا کہنا تھا کہ اگر سنیارٹی کے اصول کو قربان کرنا بھی ہے تو پھر کوئی دوسرا اصول وضع کر لیں لیکن محض اس بنیاد پر کسی کو سپریم کورٹ پہنچا دینا کہ وہ خاتون ہے ممکن ہے کہ ان سے سینیئر اور زیادہ قابل ججز کا استحقاق مجروح کرتا ہو۔ کیونکہ قابلیت کا بھی کوئی معیار طے نہیں کیا گیا، محض فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک ایک خاتون ہیں اور ہمیں تاریخ رقم کرنی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ پر تسلط کی روایت؟
اسامہ خاور نے لکھا کہ "میں جانتا ہوں کہ جب میں آپ کو یہ بتاؤں گا کہ اس معاملے میں صنف کا کوئی کردار نہیں تو آپ جواب میں کیا کہیں گے لیکن میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ کی جج بننے کی مخالفت کرنے والے افراد پدر شاہی کا قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حواری ایک اچھی جج کا تقرر متنازع طریقے سے اس لئے کر رہے ہیں تاکہ یہ اعلیٰ عدلیہ پر اپنا تسلط برقرار رکھ سکیں اور عدلیہ کی آزادی کو دبا سکیں۔" انہوں نے کہا کہ اس کا پسِ منظر طویل ہے لیکن میں ایک خلاصہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ 41 ججز کی تقرری کے لئے سنیارٹی کے اصول کو قربان کیے جانے کے حوالے سے بات گردش کر رہی ہے لیکن یہ عدد مکمل تصویر سامنے نہیں لاتا۔ 1947 سے اب تک 41 جج ضرور اس اصول کی خلاف ورزی میں تعینات ہوئے ہیں لیکن یہاں یہ بات چھپائی جا رہی ہے کہ 1996 کے الجہاد ٹرسٹ کیس میں جب سنیارٹی کا اصول طے کیا گیا، تب سے اب تک بہت ہی کم کیسز میں اس اصول کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یوں بھی 1947 سے اب تک سینکڑوں تقرریاں ہوئی ہیں، جن میں 41 ججز کے لئے اصول قربان کیے بھی گئے ہیں تو یہ بہت ہی کم تعداد ہے۔
سنیارٹی کا اصول اعلیٰ عدلیہ میں من پسند افراد لگانے کے لئے قربان کیا جا رہا ہے
الجہاد ٹرسٹ کیس کے بعد سے سنیارٹی کی روایت پر کاربند رہا گیا اور اس سے شاذ ہی ہلا جاتا تھا۔ تاہم، جب سے یہ 'ہائبرڈ تجربہ' شروع ہوا ہے، اس اصول کی خلاف ورزی عام ہوتی جا رہی ہے۔ پھر بھی ایسے ججز سامنے آتے رہے جو عمومی طور پر جاندار اور آزادانہ فیصلے کرنے کی شہرت رکھتے تھے۔ لیکن بتدریج بار نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ نئے آنے والے ججز جب سپریم کورٹ پہنچ جاتے ہیں تو 'وہی' کام شروع کر دیتے ہیں۔ اور پھر سپریم کورٹ میں تقرری کو ہائی کورٹ کے آزاد منش ججز کو سزا دینے کے لئے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ چیف جسٹس وقار سیٹھ (جنہوں نے مشرف غداری کیس اور جبری گمشدگیوں کے کیس میں آزادانہ فیصلے دیے)، اطہر من اللہ (جنہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو اب تک آزادانہ انداز میں چلایا ہے)، جسٹس مندوخیل (قاضی فائز عیسیٰ کے قریبی سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے DHA کوئٹہ کے خلاف فیصلہ دیا)، قاسم خان (قدرے آزاد منش لیکن ویسے بہت ہی ناقابلِ برداشت قسم کا کردار) اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شیخ ان میں سے چند مثالیں ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بمقابلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مخالف گروپ
سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں تقسیم نظر آئی اور متعدد ججز ان کے اور ان سے ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے ججز مثلاً جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ وغیرہ کے خلاف کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ بارز نے سپریم کورٹ میں ایسی ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے ججز کی ضرورت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے دوران پہچانا۔ بارز کے لئے آزاد منش ججز کا ہونا متعدد وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ مثلاً آزاد منش ججز کی موجودگی میں فیصلے آزادانہ ہوتے ہیں اور انسانی حقوق کا خیال نسبتاً زیادہ رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ سینیئر ججز جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن دونوں کو کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں اور دونوں ہی عدلیہ کی آزادی کے لئے اہم ادارے ہیں۔ اس ٹوئیٹ کے ساتھ اسامہ خاور نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تصویر لگائی جنہیں سپریم جوڈیشل کونسل نے چند منٹ کی کارروائی میں فارغ کر دیا تھا۔ ایسے اس ملک میں کوئی ایس ایچ او فائر نہیں ہوتا جیسے ہائی کورٹ کے ایک جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے اپنی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عدالتی نظام سے اٹھا پھینکا تھا۔
عدلیہ میں من پسند ججز لگا کر کیا حاصل کیا جا سکتا ہے؟
اسامہ خاور مزید لکھتے ہیں کہ اگر آپ سپریم کورٹ میں اپنے بندے لگانے کی طاقت رکھتے ہیں تو پھر آپ پاکستان کی پوری عدلیہ کو کنٹرول کر سکتے ہیں کیونکہ آپ قانونی فیصلے کر سکتے ہیں جن پر عملدرآمد بھی لازمی ہوتا ہے، عدالتی تقرریاں بھی آپ کر سکتے ہیں اور تقرریوں کو بطور انعام اور سپریم جوڈیشل کونسل کو بطور سزا کے ہتھیار کے استعمال کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں بنچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کو اپنے بنچز پر ایسے ججز کی ضرورت ہوتی ہے جو ان سے اختلاف نہ کریں۔ انہی ججز کو دوسرے بنچز میں بھی سربراہ لگایا جاتا ہے کیونکہ تمام کیسز چیف جسٹس خود نہیں سن سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ کو پہلے ہی قاضی فائز عیسیٰ، مقبول باقر، منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو کنٹرول کرنے میں مشکل پیش آئی ہے۔ یہ ججز متعدد مواقع پر آزادانہ انداز میں اختلافی رائے دے کر مختلف چیف جسٹسز کو زچ چکے ہیں۔ اب چیف جسٹسز مزید ایسے ججز کو اپنی عدالتوں کا حصہ نہیں بنانا چاہتے۔ آپ کو یاد ہی ہوگا جب ثاقب نثار نے غلطی سے قاضی فائز عیسیٰ اور منصور علی شاہ کو اپنے سو موٹو اختیار کے استعمال پر بننے والے بنچ کا حصہ بنا لیا تھا اور دونوں ہی نے ان سے اختلاف کیا تھا تو دو آزاد منش ججز کی موجودگی میں جسٹس ثاقب نثار کو اچانک عدالتی کارروائی کو روک کر نیا بنچ تشکیل دینا پڑ گیا تھا۔ ان کا آزاد منش ہونا ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر کے کسی اہم بنچ کا حصہ نہ بنائے جانے کی وجہ ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ دونوں ججز ملک کے سینیئر ترین ججز ہیں، ان کی جگہ جونیئر ججز اعجاز الاحسن اور قاضی امین تقریباً ہر اہم بنچ کا حصہ ہوتے ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ اور مقبول باقر محض غیر اہم سول کیسز اور جیل اپیلز سن رہے ہیں۔ یہ آزاد رائے رکھنے کا ہی نتیجہ تھا کہ سپریم کورٹ کو روایت سے بالکل ہٹ کر وزیر اعظم کے خلاف کیس میں بنچ دوبارہ بنانا پڑا، مقبول باقر کو اس سے باہر رکھا گیا اور فیصلے میں لکھا گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ آئندہ عمران خان سے متعلق کیسز نہ سنیں۔ سپریم کورٹ میں اس وقت ایسی تقسیم ہے جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اب ذرا اس سب کو جسٹس عائشہ ملک کے ٹریک ریکارڈ کے تناظر میں دیکھیے۔
کیا بار نے صرف جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کی مخالفت کی؟
اسامہ خاور کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ بارز پہلی بار یہ مسئلہ اٹھا رہی ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک کے تقرر سے کئی ماہ قبل جسٹس ایم علی مظہر کے تقرر کے وقت بھی بارز نے منظم ہو کر ہڑتال کی تھی۔ بلکہ ایک منتخب صدر سندھ ہائی کورٹ بار صلاح الدین احمد نے اس پر قومی سطح کا سیمینار منعقد کیا اور اس پر لکھا بھی۔ صلاح الدین احمد ایک ترقی پسند وکیل ہیں اور ان کی ساکھ بہت مضبوط ہے۔
پھر حامد خان نے جو کہ پروفیشنل گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ایک ملکی سطح کے کنونشن سے خطاب کیا جہاں انہوں نے ایم علی مظہر کے تقرر کے خلاف تقریر کی۔
کیا خواتین ججز کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا؟
اسامہ خاور نے لکھا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ خواتین ججز کی سپریم کورٹ میں ضرورت نہیں ہے یا خواتین کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ دو خاتون ججز لاہور ہائی کورٹ کی فخر النسا کھوکھر اور پشاور ہائی کورٹ کی خالدہ راشد خان کو پنجاب اور خیبر پختونخوا ہائی کورٹس کی چیف جسٹس بننے کا جائز حق حاصل تھا۔ لیکن لبرلز کے محبوب جنرل پرویز مشرف نے جسٹس فخر النسا کی جگہ بدنامِ زمانہ فواد چودھری کے انکل جسٹس چودھری افتخار کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس لگا دیا۔ جسٹس فخر النسا کے ساتھ شودروں جیسا سلوک کیا جاتا اور انہیں کوئی کام نہیں دیا جاتا تھا۔ یہ پورا دن عدالت میں فارغ بیٹھی رہتیں۔
اسی طرح خالدہ راشد 2011 میں پشاور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بننے والی تھیں۔ لیکن ان کو مجبور کیا گیا کہ یہ روانڈا میں انٹرنیشنل کرمنل ٹربیونل چلی جائیں۔ دوسرا راستہ نوکری چھوڑنے کا تھا۔ انہوں نے روانڈا جانے کو ترجیح دی۔
یہ سارا تنازع غیر ضروری تھا
افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ سارا تنازع غیر ضروری تھا۔ جسٹس عائشہ ملک کو سنیارٹی کا اصول قربان کرتے ہوئے سپریم کورٹ بھیجنے سے ان کا دو سال لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بننے کا استحقاق ختم ہو گیا۔ اور سنیارٹی کے اصول کی پابندی کرتے ہوئے بھی انہوں نے بعد ازاں سپریم کورٹ کا جج بن ہی جانا تھا۔ لیکن اب ان کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔
اسامہ خاور یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر سنیارٹی کا اصول قربان کیا جا رہا ہے تو پھر اصول ہے کیا؟ ابھی تک ہم یہی سن رہے ہیں کہ ماضی میں بھی جونیئر جج تعینات ہوئے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ بار صرف تنقید کر رہی ہے۔ بار نے ایک ضابطہ بھی بنا کر دیا ہے جس میں صلاح الدین احمد اور نوجوان وکیل سالار احمد کا کلیدی کردار تھا۔ سندھ ہائی کورٹ بار نے تو سپریم کورٹ کے سامنے درخواست بھی دائر کر رکھی ہے کہ ضابطہ بنایا جائے لیکن یہ درخواست اب تک زیرِ التوا ہے۔
اسامہ خاور کی جانب سے اٹھائے گئے نکات وزنی ہیں۔ ججز کو اصولاً تو ان سوالوں کا جواب دینا چاہیے۔ لیکن اب کیا کیجیے کہ ہمارے ججز نہ تو خود کو کسی آگے جوابدہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی اصول، روایت، منطق جیسی اصطلاحات ان کی صحت پر کوئی اثر ڈالتی ہیں۔ کوئی سر پھرا وکیل کسی دن کسی کانفرنس میں کھڑا ہو کر کھری کھری سنا بھی دے گا تو گڑبڑا کر ڈائس پر مکے مار کر کہہ دیں گے کہ کسی کا باپ اس عدالت پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ مگر آواز اونچی کرنے سے فیصلوں کی دھمک کم ہوتی تو اس ملک میں آج نظامِ انصاف کی کوئی ساکھ بھی ہوتی۔