'سول سوسائٹی ناگزیر حقیقت ہے'؛ سماجی کارکن جلوت علی سے ایک مکالمہ

سوشل ایکٹیوسٹ جلوت علی کا کہنا تھا کہ غیرت ایک مصنوعی جذبہ ہے ہر فرد اپنی توقیر کا محافظ ہوتااور پابند ہوتا ہے ۔ مگر یہاں غیرت کے نام پرہونے والے قتل حیوان صفت انسانوں کی سوچ کا مظہر ہیں۔ اقلیتیں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہیں۔  کم سن بچے مزدوری کے ایندھن میں دن رات جلتے ہیں اور خواتین کو نت نئی قسم کےتشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارا ادب فنون لطیفہ اور نظام تعلیم امتیازی قوانین اور رویوں کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے ۔

02:58 PM, 6 Jan, 2024

طاہر اصغر

ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جو بکھرا ہوا ہے اور جہاں مراعات یافتہ طبقہ اور اشرافیہ محروم طبقات اپنے مفادات کے لیے محروم افراد کی کسمپرسی میں اضافے کا باعث ہیں ایک کہنہ نظام اور اقتدار و سیاست کی میوزیکل چیئر کے عمل میں کوئی بڑی تبدیلی محض ایک خواب ہے۔ البتہ ایسے سماج میں افراد اور تنظیمیں کچھ تبدیل کرنے کے جنون میں آگے بڑھتی ہیں ۔اور وہ کم از کم محروم طبقات کے لیے کچھ نہ کچھ ایسے نقش چھوڑ تی ہیں جن کی بدولت اشرافیہ سے مکالمہ ممکن ہوتا ہے۔

سول سوسائٹی میں بیشتر خواتین اپنی اعلیٰ قابلیت اور ہنرمندی سے خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ جلوت علی کا نام ان خواتین میں سرفہرست ہے۔ ان کا آبائی علاقہ خانقاہ ڈوگراں ضلع شیخوپورہ ہے۔ ان کے والد سرکاری ملازم رہ چکے ہیں۔ جلوت علی کے علاوہ ان کا ایک ہی بھائی ہے جو ایڈووکیٹ ہے۔ اپنے ہی علاقے میں سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کر نے کے بعد جلوت علی نے کوئین میری کالج لاہور سے گریجوایشن کا امتحان پاس کیا اور اس سے پہلے ایف ایس سی (میڈیکل) کیا ۔ بی ایڈ کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے  پولیٹیکل سائنس کیا ۔ بی اے کا امتحان دینے کے بعد ہی لاہور سے فاروق طارق کے زیرادارت شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’مزدور جدوجہد ‘‘ میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر پہلی ملازمت اختیار کی ۔ بعد ازاں اسی ادارے کی تنظیم قائم ہوئی تو اس میں بطور پراجیکٹ کوآرڈی نیٹر کام کا آغاز کیا ۔ 

جلوت علی کا کہنا ہے اکثر طالب علموں کی طرح مجھے بھی ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اسی لیے ایف ایس سی کیا تھا۔ پھر شاید ٹیچنگ کی جانب بھی رحجان تھا ۔ لیکن میں اتفاق سے سول سوسائٹی کی جانب آگئی کہ یہ شعبہ بھی انسانی خدمت ان کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد سے عبارت ہے ۔ 

 ان  کا کہنا ہے کہ اختلاف رائے تو فطری سی بات ہے ۔  ترجیحی بنیادوں پر پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے  خلاف آواز بلند کرنا ہی ہمارا  مقصد ہے ۔ جلوت علی کا کہنا ہے کہ ’’ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بھی ایک بڑا خطرہ ہے ۔ مذہب پر بات نہیں کرسکتی کہ ہمارے موقف کو غلط رنگ دے دیا جاتا ہے۔مذہب اور ریاست الگ الگ ہیں۔ یہاں اقلیتیں آباد ہیں۔ مندر ، گرجا  اور گردوارے موجود ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک سیکو لر ریاست تشکیل دینا چاہتے تھے جوشومئی قسمت سے ممکن نہ ہوسکا ۔ ‘‘ جلوت علی کا کہنا ہے کہ ’’میں اس بات سے قطعی طور پر متفق نہیں ہوں کہ این جی اوز ویسٹ کے ایجنڈے کو پروان چڑھاتی ہیں تاکہ انہیں زیادہ فنڈنگ مل سکے ۔ ہم نے چائلڈ لیبر ، غیر ت کے نام پر قتل ، اقلیت پر اکثریت کے غلبے کے خلاف آواز اٹھائی ہے ۔

سوشل ایکٹیوسٹ جلوت علی سے سوال کیا گیا کہ کیا کبھی کسی حکومت کی جانب سے غیر سر کاری تنظیموں کو مشکل حالات سے دوچار ہونا پڑ ہے ؟

جلوت علی نے جواب دیا کہ ایک گزشتہ سول حکومت کے دور میں ہمیں ایسے حالات کا سامنا کر نا پڑا ہے کہ حساس ادارے ڈاکومینٹیشن کے نام پر ’’جامعہ تلاشی‘‘  لینے کے لیے آئے مگر مایوس لوٹ کر گئے۔ کسی بھی این جی او کا کچھ بھی خفیہ نہیں رکھا جاتا ۔ سول سوسائٹی ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ یہ ہر ملک میں اپنا وجود رکھتی ہے اور ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی اور اس کے مسائل کی جانب توجہ مبذول کراتی ہے ۔   ہم نے  اول روز سے ہی اپنی تنظیم کو انسانی حقوق کی بازیابی کے لیے انتھک محنت کے باوصف قائم کیا ہے اور یہاں ہر فرد ذہنی طور  پرہر نوعیت کے حالات کے لیے تیار رہتا ہے ۔ ‘‘

جلوت علی کا کہنا ہے کہ’’ غیرت ایک مصنوعی جذبہ ہے ہر فرد اپنی توقیر کا محافظ ہوتااور پابند ہوتا ہے ۔ مگر یہاں غیرت کے نام پرہونے والے قتل حیوان صفت انسانوں کی سوچ کا مظہر ہیں۔ حدود آرڈیننس کے نام پر تو ہر جرم پر فوری سزا کا اعلان ہوجاتا ہے ۔چہ جائیکہ اس کے مصدقہ ہونے کی اطلاع بعد ازاں ملتی ہے جبکہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتال پر کتنی سزائیں دی گئیں ہیں۔ آپ ذرا پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹس کا مطالعہ کر کے دیکھیں، اقلیتیں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہیں۔  کم سن بچے مزدوری کے ایندھن میں دن رات جلتے ہیں اور خواتین کو نت نئی قسم کےتشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارا ادب فنون لطیفہ اور نظام تعلیم امتیازی قوانین اور رویوں کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے ۔‘‘ 

جلوت علی ان دنوں اپنے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ سا تھ اپنے کام، مشاہدے تجربے اور مطالعہ بدولت اپنی کتاب ’’ زیتون کی شاخ‘‘ کے نام سے ترتیب دے رہی ہیں جو سول سوسائٹی کی صورت حال اورجدوجہد کے حوالے سے ایک نادر دستاویز ہوگی ۔وہ تبدیلی کے خواب کو ممکن کرنے کے لیے اپنا بھرپور اور مثبت کردار ادا کرنے کی خواہشمند ہیں۔

مزیدخبریں