سینیٹ کا جمہوریت پر خودکش حملہ

عام انتخابات، اپنے انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہوچکے ہیں۔ اگر یہ انتخابات ہوبھی گئے تو اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی اخلاقی اور سیاسی حیثیت نہیں ہوگی اور وہ کافی کمزور ہوگی۔ کیونکہ جس طرح سے سیاسی انجینئرنگ ہورہی ہے، اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کسی صورت بڑے فیصلے نہیں کر سکے گی۔ ممکن ہے کہ یہ خدشات سامنے رکھ کر ن لیگ انتخابات کے انعقاد کو التوا دینا چاہتی ہو، لیکن یہ التوا اسے مزید نقصان دے گا۔

05:55 PM, 6 Jan, 2024

عبدالرزاق کھٹی
Read more!

پاکستان میں ایک بڑے عرصے سے اس بات کو محسوس کیا جا رہا ہے کہ آئے روز ایک بڑی خبر، گزرے کل کی بڑی خبر کو کھاجاتی ہے۔ پاکستان کا روایتی سینسرزدہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے جہادی اس قومی عادت کو زیادہ طاقتور بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شاید ایک دو ماہ ہی مشکل سے ہوئے ہوں گے، جب غیر قانونی ڈالرز کی سمگلنگ کو روکنے  کیلئے کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تھا۔ اس وقت پنڈی کے ایک شاپنگ مال سے کرنسی نوٹوں کا ایک بڑا خزانہ ہاتھ آیا تھا۔ وہ کس کا تھا؟ اس کیس کا کیا ہوا؟ اب پاکستان کے میڈیا کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔ کیونکہ ہمارا میڈیا ڈے ٹو ڈے اشوز پر چلنے کا عادی ہوگیا ہے۔ نتیجے میں عوام کی زندگی کے ساتھ جڑے اہم معاملات پر اب بات ہوتی ہی نہیں۔ اور اشرافیہ کی 'بَلّے بَلّے' لگی ہوئی ہے۔ 

سیاسی معاملات کے بارے میں پاکستان کا کون سا آدمی ہے جو اس پر بحث نہیں کرتا، لیکن اس کے باجود سیاست برباد ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر لوگوں کے درمیان کوئی اپنی بیماری کا ذکر کر دیں تو سارے ڈاکٹر بن جاتے ہیں اور اگر کوئی ڈاکٹر آجائے تو سبھی مریض بن جاتے ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ایک بڑی کنفیوژن ہے جو سرشت میں شامل ہوچکی ہے۔ مختلف نظریات و عادات گڈ مڈ ہوچکی ہیں۔ ہم ایک ایسے جم غفیر میں تبدیل ہوچکے ہیں، جو سوچنے سے پہلے عمل کرتا ہے اور عمل کرنے کے بعد سوچتا بھی نہیں۔ ایسے معاشرے میں ایسا ہی کچھ ہوسکتا ہے، جو ابھی ہورہاہے۔

پاکستان میں عام انتخابات 8 فروری کو ہونے ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ان انتخابات کے انعقاد کو پتھر پر لکیر قرار دے چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے اہم ہوں یا عام، تمام لوگ اس بات پر یقین نہیں کر رہے کہ عام انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں؟ اس طرح کے حالات میں جب پاکستان کا منتخب ایوان بالا، جسے سینیٹ کہا جاتا ہے، وہ اگر چیئرمین سینیٹ کی آشرباد سے 12 فیصد ارکان کی رائے کو پورے ایوان کی رائے قرار دے کر عام انتخابات کے التوا کی قرارداد منظور کرلے تو ملک بھر میں اس بات پر یقین ہونے لگتاہے کہ عام انتخابات ملتوی کرانے کی کوششیں آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں۔

 یہ قرارداد جب منظور ہوئی تو اس کے گھنٹے ڈیڑھ بعد اسلام آباد میں ایک مذہبی جماعت کے رہنما کو نامعلوم افراد قتل کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔ ملک میں برفباری ، سرد موسم، دہشتگردی سارے حقائق اپنی جگہ، لیکن یہ تاریخ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو دی تھی۔ منتخب ایوان آئینی اداروں کی تکریم کے سب سے بڑے وکیل تھے، اب ان ہی اداروں کو بے توقیر کرنے میں سب سے آگے ہیں۔

 کیا سینیٹ یا قومی اسمبلی کی قرارداد قانونی حیثیت رکھتی ہے؟ 

اگر آپ سینیٹ یا قومی اسمبلی کی ویب سائٹس کھول کر قرارداد کے فولڈر میں جائیں گے تو درجنوں قراردادیں پڑی ملیں گی، جو ان ایوانوں سے منظور کی گئی ہیں۔ لیکن ان قراردادوں پر عمل کرانا حکومت کیلئے پابندی نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ قراردادیں جہاں سے منظور ہوتی ہیں اس ایوان کی رائے کا مظہر ہوتی ہیں۔ لیکن جب 5 جنوری کو عام انتخابات کے التوا کیلئے سینیٹ سے یہ قرارداد منظور ہوئی تو اس کا نوٹیفکیشن نکالا گیا، اور میڈیا کو جاری کیا گیا تاکہ اس قرارداد کا وزن بڑھایا جائے اور میڈیا میں ہیجان پیدا کیا جائے۔ تاکہ عام آدمی کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ عام انتخابات نہیں ہونے جارہے۔ اس کا سب سے بڑا نفسیاتی اثر عام ووٹر پر پڑا ہے اور جو امیدوار انتخابی مہم میں موجود ہیں ان کی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے اس قرارداد کا اصل مقصد عام ووٹر اور امیدواروں کے درمیان دوری پیدا کرنا تھا۔ قرارداد کی قانونی حیثیت نہیں۔

سینیٹ کیا ہے؟

پاکستان میں 1973ع کے آئین سے پہلے ملک میں ایک ایوانی نظام تھا۔ یعنی صرف قومی ا سمبلی ہوا کرتی تھی، سینیٹ کا ایوان نہیں تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جب نیا آئین منظور ہوا تو اس میں ایوان بالا جسے انگریزی میں سینیٹ کہتے ہیں اس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ایوان کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ قومی اسمبلی میں تمام صوبوں کی نمائندگی یکساں نہیں ہوتی۔ ایوان بالا میں تمام صوبوں کو یکساں نمائندگی دی جائے۔ قومی اسمبلی کی جانب سے آئین میں ترمیم ہو یا قوانین کی منظوری، جب تک سینیٹ اسے منظور نہ کرے وہ قانون نہیں بن سکتا۔ قومی اسمبلی کو صرف دو اختیارات زیادہ ہیں، ایک وہ وزیراعظم کا انتخاب کرتی ہے اور دوسرا سالانہ بجٹ کی منظوری۔ باقی دونوں ایوان کا تقدس ایک جیسا ہے۔ 

  سینیٹ کے ارکان کو صوبائی اسمبلیاں  منتخب کرتی ہیں، جبکہ وفاقی کی نمائندگی کے طور پر قومی اسمبلی سے سینیٹرز کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ تاکہ تمام اکائیوں کی برابر نمائندگی ہو اور وفاق کو بہتر طریقے سے چلایا جائے۔ اس ایوان کو اگر سیاسی دانشوروں کا ایوان کہا جائے تو بجا ہوگا۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں کوشش کرتی ہیں کہ اس ایوان کیلئے ایسے لوگوں کو انتخاب کریں جو سیاست اور سماج کے علوم کے ماہر ہوں۔ 

لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چھ سالوں سے ایوان بالا کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، اس پر سوائے ندامت یا ملامت کے کوئی اظہار نہیں کیا جاسکتا۔ 

سینیٹ کے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی اصل میں آصف زرداری اور عمران خان کا تحفہ ہیں، جو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر اس ملک کےعوام کو دیا تھا۔ بعد میں صادق سنجرانی کے خلاف جو تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اس میں بھی آصف زرداری نے اہم کردار ادا کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ عین وقت پر زرداری صاحب اور دیگر جماعتوں کے کچھ ارکان کو مینیج کرکے چیئرمین شپ کو تبدیل ہونے سے روکا گیا۔ 

اگر آپ کو یاد ہو تو جس دن تحریک عدم اعتماد پیش ہورہی تھی تو پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر اور ن لیگ کے مصدق ملک نے پولنگ بوتھ میں لگے کیمرے برآمد کیے تھے۔ شام کو جب تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو چیئرمین شپ کے یقینی امیدوار مرحوم حاصل خان بزنجو نے اپنی شکست کے بعد جو ایوان میں فیض حمید کا نام لے کر تقریر کی وہ آج بھی یوٹیوب کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ اپوزیشن کی اس ناکامی کے بعد سیاسی جماعتوں نے علیحدہ علیحدہ تحقیقاتی کمیٹیز بنائی تھیں، تاکہ پتہ لگایا جاسکے کہ وہ کون کون سے ارکان تھے جنہوں نے حاصل بزنجو کے بجائے صادق سنجرانی کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن یہ سیاسی جماعتیں معلومات مل جانے کے باجود بھی ان ارکان کو چھیڑ نہ سکیں۔ 

اس سےپہلے رضا ربانی چیئرمین سینیٹ تھے، جنہوں نے اس ایوان کی توقیر و طاقت میں اضافہ کرنے کیلئے بہت سارے اقدامات کیے جن کی نظیر پہلے نہیں ملتی۔ انہوں نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سینیٹ کو نمائندگی دلوائی۔ اس سے پہلے اس کمیٹی میں صرف قومی ا سمبلی کے ارکان ہوا کرتے تھے۔ سینیٹ میں نمائندگی ملنے کے بعد پی اے سی پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بن گئی۔ رضا ربانی نے ہول کمیٹی کی بنیاد ڈالی جس میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اور جنرل باجوہ کو بلاکر بریفنگز لی گئیں۔

 ان دنوں ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہوئی تھی۔ چیئرمین سینیٹ رضاربانی نے مسکراتے ہوئے جب جنرل باجوہ سے اس فوجی بغاوت کی ناکامی کے بارے میں سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ جب سیاستدان لوگوں کو ڈلیور کرتے ہیں تو لوگ اس نظام کو بچانے کیلئے باہر نکل آتے ہیں۔ 

رضاربانی کو دوسری بار چیئرمین سینیٹ بنانے کیلئے نواز شریف نے غیر مشروط حمایت کی لیکن یہ بات زرداری صاحب کو پسند نہ آئی۔ اور صادق سنجرانی کی صورت میں پاکستان کو ایسا تحفہ دیا جو جمہوریت کے بجائے جمہوریت کو کنٹرول کرنے والوں کے ایجنڈے کو مکمل کرتا ہے۔ 

 حالیہ قرارداد کو اس پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک دو سوال اور بھی ہیں، جس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں کہ کیا یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کا کیا کرایا ہے یا دوسرے بھی اس میں شامل ہیں؟

سینیٹ کی قرارداد پر خوشی اور تشویش کا اظہار کرنے والے حلقے:

عام انتخابات کے التوا کی سینیٹ میں منظور ہونے والی قرارداد کے بعد واضح طورپر پاکستان کے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں ردعمل آیا۔ صحافی کامران خان، جو واضح طورپر اسٹیبلشمنٹ کی جانب فخریہ کھلا جھکاؤ رکھتے ہیں، اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پاکستان کی عوام کو مبارک باد دیتے نظر آئے جبکہ دوسری جانب دیگر صحافیوں کو سینیٹ کی قرارداد سے واضح بو محسوس ہوئی کہ جو کچھ سینیٹ چیئرمین کی سرکردگی میں ہوا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کے تحت ہوا ہے۔ ماضی کا ٹریک ریکارڈ سامنے رکھا جائے تو ان کی یہ بات ٹھیک تھی۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ عام انتخابات ملتوی ہوبھی جائیں تو اس کا فائدہ اور نقصان کس کو ہوگا؟ 

مسلم لیگ ن جو اس وقت دو مشکلات کا شکار ہے، اس کیلئے عام انتخابات وقت پر ہونا فائدے میں ہے یا نقصان میں؟ 

میاں نواز شریف اکتوبر میں جب وطن واپس آئے تو وہ اپنے بیانیے کی زنبیل  لندن میں چھوڑ آئے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد ن لیگ کے قائد، جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پنجاب میں پہلی بار بیانیہ بنایا تھا، اس بیانیے نے پاکستان میں بہت سی سیاسی قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ بجا طور پر بڑا متوسط طبقہ رکھنے والے پنجاب میں اس  بیانیے کو قبول کرانا مشکل تھا لیکن میاں نواز شریف اس میں کامیاب رہے۔ یہ ہی سبب تھا کہ ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف بھی ملک بھر میں شہباز شریف سے زیادہ مقبول ہوئیں۔ لیکن وطن واپسی پر نواز شریف کے پاس عوام کو بیچنے کیلئے کچھ بھی نہ تھا، وہ دن اور آج کا دن ہے کہ میاں صاحب ابھی تک ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کرسکے۔ کیونکہ سخت سوالات کا سامنا کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہیں۔ دوسری جانب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بننے والی پی ڈی ایم حکومت کےسخت معاشی فیصلوں نے حکومت کی اتحادی جماعتوں کو شدید نقصان پہنچایا تو دوسری جانب عمران خان کی مقبولیت کا گراف بڑھتا گیا۔  نگران دور حکومت میں اس گراف میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان استحکام پارٹی کیلئے  پنجاب میں گنجائش پیدا کرنے کیلئےجو ن لیگ پر دباؤ بڑھایا گیا ہے اس نے خود ن لیگ کے اندر تقسیم پیدا کردی ہے۔ 

میاں نواز شریف، جو اپنے سیاسی  بیانیے کی قیمت پر آئندہ حکومت بنانے کی یقین دہانی پر وطن واپس آئے تھے۔ 8 فروری کے انتخابات میں کتنی اکثریت حاصل کرسکیں گے، اس بارے میں انہیں یقین نہیں ہے۔ دوسری جانب ن لیگ کی رضامندی سے عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف جس تیزی کے ساتھ انتقامی کارروائیاں ہورہی ہیں، اس عمل نے پنجاب اور پختونخوا میں عمران خان کی حمایت میں اضافہ کردیا ہے۔ یہ ہی سبب ہے کہ عام انتخابات، اپنے انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہوچکے ہیں۔ اگر یہ انتخابات ہوبھی گئے تو اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی اخلاقی اور سیاسی حیثیت نہیں ہوگی اور وہ کافی کمزور ہوگی۔ کیونکہ جس طرح سے سیاسی انجینئرنگ ہورہی ہے، اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کسی صورت بڑے فیصلے نہیں کر سکے گی۔ ممکن ہے کہ یہ خدشات سامنے رکھ کر ن لیگ انتخابات کے انعقاد کو التوا دینا چاہتی ہو، لیکن یہ التوا اسے مزید نقصان دے گا۔ ایسے ہی، جیسے فیض حمید کا بھوت دکھا کر اسٹیبلشمنٹ نے پی ڈی ایم جماعتوں کو ٹریپ کیا اور خود عمران خان کا بوجھ اٹھا کر ان کے کندھے پر ڈال دیا تھا۔ پی ڈی ایم اتحادی جماعتوں کی حکومت میں جتنا حصہ ن لیگ کا تھا، اس کا سیاسی نقصان اس سے زیادہ ہوا ہے۔ 

اب سوال یہ ہے کہ کیا سینیٹ کی قرارداد سے انتخابات ملتوی ہوجائیں گے؟ جواب ہے نہیں، کیونکہ موجودہ چیف جسٹس کی موجودگی تک عام انتخابات ملتوی نہیں ہوسکتے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں اس طرح کی حرکت کرکے سینیٹ نےخود کو رسوا کیا؟

اس کا جواب ڈھونڈنے کیلئے مختلف سیاسی لیڈروں سے بات ہوئی ان کے جوابات کچھ اس طرح تھے۔

اس وقت نگران وزیراعظم انواالحق کاکڑ اور چیئرمین سینیٹ کے درمیان چمچہ گیری کے نتیجے میں اقتدار کو مستحکم رکھنے کی ریس جاری ہے۔ نگران وزیراعظم خود مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں حصہ لیکر چیئرمین سینیٹ بننے کےخواہشمند ہیں، یہ ہی سبب ہے کہ اس وقت وہ بلوچستان کے سیاسی حالات کے بارے میں وہی پرانا نوائے وقتی ٹائپ کے نظریہ پاکستان کے مبلغ بننے کی کامیاب کوشش کرتے نظر آرہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی کامیاب سیاسی وکالت ہی آنے والے منظرنامے میں ان کی جگہ بنانے کا سبب بن سکتی ہے۔ صادق سنجرانی نگران وزیراعظم بننے کے خواہشمند تھے۔ لیکن جب ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو اب وہ ایک بار پھر سینیٹ چیئرمین کا عہدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہی وہ ریس ہے جو صادق سنجرانی کو آخری حد تک لے گئی ہے کہ ہاؤس آف فیڈریشن کا نگران ہونے کے ناطے اس کے برعکس کام کیا۔ جبکہ اگر انتخابات نہیں ہوتے تو صادق سنجرانی اور انوارالحق کاکڑ اپنے عہدوں پر برقرار رہیں گے۔ 

منتخب نمائندے اپنا کام کیوں نہیں کرتے؟

پاکستان میں عوام کی اپنے منتخب نمائندوں سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ ایوان نمائندگان میں اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلاتے۔ سینیٹ ہو یا قومی اسمبلی، ارکان کی بڑی اکثریت اپنی تنخواہ بھی حلال کرکے نہیں کھاتی۔ انہیں جو آسائشیں عوام کے ٹیکسز سے مہیا کی جاتی ہیں، ان پر عوام کا حق ادا کرنے کے بجائے وہ ان آسائشوں اور استحقاق کو عوام پر دھونس جمانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ 5 جنوری کو سینیٹ کے ایک سو ارکان میں سے اگر ںصف بھی موجود ہوتے تو کسی صورت یہ قرارداد منظور نہیں ہونا تھی۔ لیکن ان ارکان کی ایک بڑی اکثریت، جو جمعہ کے دن اپنے علاقوں کی طرف بھاگنے کی کوشش میں ہوتی ہے۔ اس بھاگم بھاگ کا فائدہ اٹھاکر نماز جمعہ کے بعد یہ قرارداد لائی گئی، تاکہ ارکان کی غیر موجودگی میں اس کا فائدہ اٹھایا جائے۔ لیکن ان چودہ ارکان کی موجودگی میں بھی یہ قرارداد رک سکتی تھی۔ لیکن بہرامند تنگی ہوں یا ن لیگ کے افنان اللہ خان، یا تحریک انصاف کے رکن، کسی نے بھی کورم کی نشاندھی نہیں کی، کیوں کہ ہر کوئی کسی نہ کسی کے ایجنڈے پر تھا۔ چیئرمین سینیٹ یا قرارداد لانے والوں کو تو یہ قرارداد منظور کرانا تھی، لیکن روکنے والے کیوں نہیں روک پائے؟  

 اس کی بھی کوئی تحقیقات نہیں ہوگی، کیونکہ سیاسی جماعتیں ملکی تاریخ میں پہلی بار آخری حد تک مصلحت میں جکڑی نظر آتی ہیں۔ یہ ہی سبب ہے کہ ان جماعتوں نے ہاؤس آف فیڈریشن کی توقیر کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ اس لیے ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں جمہور کے بجائے جرنیل پر زیادہ یقین رکھنے لگی ہیں۔ اور جب ان سے کام نکال لیا جاتا ہے تو ان کا نمبر بلاک کردیا جاتا ہے، تب تک ،جب تک ان کی دوبارہ ضرورت پیش نہ آئے۔

 اسی لیے ان کو ملک کا بیڑا غرق کرنے والے جنرل باجوہ سے سینیٹ میں بھی یہ طعنہ سننا پڑتا ہے کہ اگر سیاستدان ڈلیور کریں تو عوام ان کیلئے باہر نکل آتی ہے۔

مزیدخبریں