مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل شمالی پنجاب رضا احمد شاہ کا کہنا تھا پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کی شدید مذمت کرتے ہیں، اس ملک میں جماعت اسلامی وہ واحد سیاسی مذہبی جماعت ہے جو مندر کی تعمیر کے خلاف عدالت گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر جارحیت کا مظاہرہ کررہا ہے اور ہمارے حکمران اسلام آباد میں مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں ایسا نہیں ہوگا، مندر کی تعمیر رکوانے کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔
اس سے قبل آج 6 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا۔
ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ سی ڈی اے نے بتایا کہ مندر کا بلڈنگ پلان نہ ہونے کی وجہ سے کام رکوا دیا ہے۔ عدالت نے سی ڈی اے سے استفسار کیا کہ پلاٹ کس جگہ واقع ہے اور کس مقصد کے لیے استعمال ہو گا؟ ڈائریکٹ اربن پلاننگ سی ڈی اے نے بتایا کہ ایچ نائن ٹو میں 2016 میں پلاٹ دینے کے حوالے سے کارروائی شروع ہوئی، مندر،کمیونٹی سنٹر یا شمشاد گاٹ کے لیے یہ جگہ ہندو کمیونٹی کو الاٹ ہوئی، وزارت مذہبی امور، سپیشل برانچ اور اسلام آباد انتظامیہ کی تجاویز کے بعد پلاٹ الاٹ کیا گیا، اسی پلاٹ کے ساتھ عیسائی، بہائی، قادیانی اور بدھ مت کمیونٹی کے لیے قبرستان کی جگہ الاٹ ہو چکی، 3.89 کنال جگہ 2017 میں الاٹ کر کے 2018 میں جگہ ہندو پنچایت کے حوالے کی گئی۔
جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ مندر کا نقشہ آیا ہے منظوری کے لیے یا نہیں؟ سی ڈی اے نے جواب دیا کہ منظوری کے لئے نہیں آیا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے جواب دیا کہ درخواست گزار دس کروڑ روپے کا کہہ رہے ہیں حکومت نے ابھی تک مندر کی تعمیر کے لیے کوئی فنڈنگ نہیں کی، حکومت نے معاملے پر اسلامی نظریاتی کونسل سے سفارشات مانگی ہیں، معاملے پر دنیا میں اچھا پیغام نہیں جا رہا، آئین بھی غیر مسلموں کو عبادت گاہ بنانے کی اجازت دیتا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ مندر کی منظوری اور فنڈنگ دو الگ الگ مسئلے ہیں، حکومت نہ فنڈنگ دے سکتی ہے نہ مندر بنانے کی منظوری دے سکتی ہے۔ جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل کو معاملہ بھجوا دیا ہے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔