پہلے وزیراعظم کے اپنے آبائی شہر کے بیچوں بیچ ایاز امیر پر تشدد اور اب ان کے نئے مسکن اسلام آباد سے کچھ ہی فاصلے پر "خو دکو صحافی کہنے والے" عمران ریاض خان کی گرفتاری ثابت کرتی ہے کہ کندھوں پر سوار حکومت کی اصل اوقات کیا ہوتی ہے۔
اصل محرکات چھوڑیں ، کاغذوں پر عمران ریاض خان کی گرفتاریکی وجہ وہ مقدمات ہیں جو ان سمیت کچھ دیگر" خود کو صحافی کہنے والوں " ارشد شریف، صابر شاکر، سمیع ابراہیم کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں درج کیے گئے ہیں۔ ان مقدمات میں ان تمام حضرات پر ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانات سے انتشار پھیلانے اور بغاوت پر اکسانے کی کوششوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ظاہری طور پر ایاز امیر اور عمران ریاض کے واقعات میں مماثلت تو نہیں ڈھونڈی جاسکتی کیوں کہ نہ تو ایاز امیر صاحب پرکہیں بغاوت کا مقدمہ درج ہوا تھا اور نہ ہی بھرے چوک پر عمران ریاض خان پر تشدد ہو اہے ۔لیکن گرفتاری اور تشدد کی وارداتوں کے پیچھےکارفرما " مائنڈ سیٹ"ایک ہینظر آئے گا۔
سب سے پہلے" خود کو صحافی کہنے والوں "کے خلاف جس بھونڈے طریقے سےمختلف شہروں میں مقدمات درج کیےگئے(نیت صاف ہوتی تو ایک آدھ ایف آئی آر سے ہی منزل کے حصول کی تلاش کی جاسکتیہے ) بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس قسم کی ایف آئی آرز کا مقصد مقدمہ چلانا نہیں بلکہ فقط پریشر ڈالنا ہوتا ہے ۔ پھر عمران ریاض خان کی گرفتاری کے مناظر دیکھیں ، اور وارداتیوں کو داد دیں، کیونکہ ان ویڈیوز اور سوشل میڈیا کے ٹرینڈز سے صاف نظر آتا ہے کہ گرفتاری کا مقصد عمران ریاض کو کوئی سزا دینا نہیں بلکہ ان کو مقبولیت میں مزید اضافہ کرناہے ۔ جبکہ ایاز امیر صاحب کے تشدد والے واقعے کے پیچھے بھی اسی قسم کا مائنڈ سیٹ نظر آتا ہے ۔ ایاز امیر پر ہونے والے حملے نے نہ صرف ان کے اسلام آباد ہائیکورٹ بار والی تقریر میں ایک دفعہ پھر جان ڈال دی ، بلکہ ایک ٹی وی اسکرین پر محدود سے وقت کےلئے نظر آنے والے ایاز امیر صاحب مختلف چینلز پر نظر آ ئے اور کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے انداز سے وہ اطمنیان سے وارداتیوں کی واردات کا قصہ سناتے رہے ۔جبکہ ان کی لاہور ہائیکورٹ بار روم میں وکلاء سے خطاب کی تقریر کی مقبولیت بھی سب کے سامنے ہے۔
اب عمران ریاض خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی نے ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کررکھا ہے ۔ جبکہ گزشتہ حکومت میں جب کپتان کندھوں پر سوار تھے تو انہوں نے متنازعہ قانون کے ذریعے سوشل میڈیا پر آزادی رائے کا اظہار کرنے والے صحافیوں اور سوشل میڈیا کارکنان کو بپابند سلاسل کرنے کی تقریباً تقریباً منصوبہ بندی کر لی تھی۔ کندھوں پر سوار کپتان دور میں عامر میر ، عمران شفقت ، رضوان رضی اور محسن بیگ کے اوپر اعلیٰ عدالتی ججوں، فوج ، غیراخلاقی الزامات اور خواتین سے متعلقہ تضحیک آمیز رویہ پر مقدمات درج کیے گئے ۔ جبکہ ابصار عالم ، اسد طور اور مطیع اللہ جان سمیت دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کو اغوا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
کیا آپ لوگ جاتنے ہیں اس وقت کی اپوزیشن جو آج حکومت میں ہیں ان کے ردعمل کیا تھے ؟شہباز شریف نے فرمایا سوال کرنے والوں سےنمٹنا بدترین حماقت وفسطائیت ہے۔ بلاول بھٹو صاحب نے خان صاحب کو یاد دلایا یہ جمہوریت ہے، کوئی آمرانہ دور نہیں۔ مریم نواز صاحبہ نے اس کو غیر اعلانیہ مارشل لا قرار دیا تو مریم اورنگزیب صاحبہ نے سیدھا سیدھا حکومت کو فاشٹ کہا۔ لیکن آج کندھوں پر سوار انہی سیاستدانوں کے لب خاموش ہیں۔
سیاسی رہنماوں سے کیا گلا کرنا خو د عمران ریاض خان اور ارشد شریف جو اس وقت کسی کے کندھوں پر سوار تھے ، ابصار عالم ، مطیع اللہ جان ، اسد طور جیسے زیرعتاب صحافیوں کی مشکلات کا تمسخر اڑاتے تھے۔
تو جناب عمران ریاض خان صاحب اور ان کےہم آواز ساتھیو، آج آپ جن حالات کا سامنا کررہےہیں ، اس کی وجہ آپ لوگوں کے آج کے سچ نہیں بلکہ کل کے وہ جھوٹ ہیں جنہوں نےان کو شہ دی ۔
رضوان عبدالرحمان عبداللہ