تفصیلات کے مطابق ابصار عالم پر حملہ کرنے والوں نے نہ صرف انہیں قتل کرنے کی کوشش کا اعتراف کیا ہے بلکہ یہ بھی قبول کیا ہے کہ انہیں ایک اور صحافی اسد طور کو قتل کرنے کا ٹاسک بھی دیا گیا تھا لیکن فائرنگ میں ابصار کے بچ جانے کی وجہ سے پلان تبدیل ہوگیا۔
دی نیوز میں شائع ہونے والی صحافی عمر چیمہ کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ بین الاقوامی جرم کے منصوبے میں شامل تھا جس کے تحت حملہ کرنے کی ہدایت جرمنی سے آئی، کام پورا کرنے کیلئے شیخوپورہ سے ایک شخص کو ذمہ داری دی گئی جس نے خوشاب سے قاتلوں کو کرائے پر حاصل کیا جبکہ ابصار کے رہائشی علاقے کے متعلق معلومات اور انہیں نشانہ بنانے کیلئے رقم کی ادائیگی لاہور اور راولپنڈی میں کی گئی۔
اس معاملے پر کام فروری 2021ء میں شروع کیا گیا جبکہ ابصار پر اپریل اور اسد طور پر مئی میں حملہ کیا گیا۔ اس کام کی ذمہ داری 32؍ سالہ زین غیاث کو دی گئی جو ماسٹر مائنڈ تھا جس نے یہ کام 23؍ سالہ حماد سلیمان کو دیا۔ زین غیاث اپنے آبائی ضلع گجرات میں ایک اشہتاری ہے اور جرمنی جا چکا ہے۔
اس نے یونان میں مقیم اپنے کزن شاہنواز کے ذریعے یہ کام حماد کو سونپا۔ شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والا حماد سیکورٹی فورس میں دو سال تک وائرلیس آپریٹر تھا جسے بعد میں نکال دیا گیا۔
ابصار کو گولیاں مارنے والے شخص کو خوشاب سے کرایے پر حاصل کیا گیا۔ مجموعی طور پر اس واقعے میں 8؍ لوگ ملوث ہیں۔ ابصار کے معاملے کے ساتھ ان افراد کا تعلق خوش قسمتی سے اس وقت پتہ چلا جب حماد کو رواں سال فروری میں شیخوپورہ پولیس نے ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کیا۔
تاہم، تحقیقات کے دوران، پولیس کو مخبروں سے پتہ چلا کہ حماد صحافیوں پر حملوں میں ملوث ہے۔ تفتیش میں اس نے چھوٹے پیمانے پر منشیات کے دھندے کا بھی اعتراف کیا۔
ابصار اور اسد پر حملے کیلئے بنیادی کام جیسا کہ معمول کی ریکی، چہروں کی شناخت، ان کے گھروں کی تصاویر لینا اور یہ دونوں کون سی مسجد جاتے ہیں، حماد کی قیادت میں مقامی ٹیم نے کیا۔
اس نے بعد میں ندیم اصغر کو کرایے پر حاصل کیا جس نے ابصار کو گولی ماری۔ حماد نے پولیس کو بتایا کہ وہ کئی ہفتوں تک ابصار کے گھر کی نگرانی کرتے رہے لیکن ابصار گھر سے بہت کم ہی باہر نکلتے تھے۔ اسی دوران انہیں اسد طور اور ان کے اتے پتے کی ریکی کا کہا گیا۔
ابصار کو گھر سے باہر نکالنے کا پلان یہ سامنے آیا کہ چند گلیاں دور مقیم اسد طور پر حملہ کیا جائے جس سے ابصار گھر سے نکل کر اسد کے پاس گھر جائیں گے یا اسپتال جائیں گے، جیسے ہی ابصار گھر سے نکلیں گے ان پر بھی حملہ کیا جائے گا۔ لیکن اسی دوران زین کو یہ معلومات ملیں کہ ابصار نے روزانہ صبح کو اپنی چہل قدمی کا سلسلہ بحال کر دیا ہے اسلئے فی الحال اسد پر حملے کا منصوبہ ترک کرکے پہلے ابصار کو نشانہ بنانے کا پلان بنایا گیا۔
زین نے حماد کو حملے کا جواز یہ بتایا کہ ’’غیرت‘‘ کا معاملہ ہے جبکہ اسد طور پر اسلئے حملہ کرنا ہے کیونکہ وہ ابصار کے نقش قدم پر چلتا (Protege) ہے۔ حماد کو اس کام کیلئے تین اقساط میں 15 لاکھ ملے، پہلے معاہدہ 10 لاکھ میں ہوا تھا۔
پیسے وصول کرنے کیلئے حماد لاہور کے آر اے بازار میں ایک شخص سے ملا جو مہنگی جاپانی گاڑی میں سوار تھا جبکہ جس شخص نے ابصار کا پتہ دیا اس کی حماد سے ملاقات ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے باہر ہوئی۔ یہاں سے اسلام آباد میں ابصار کی رہائش گاہ کی ریکی شروع ہوئی۔
یہ لوگ شیخوپورہ سے رینٹ اے کار کرکے آتے، ویڈیوز بناتے اور دن کا کام مکمل کرنے کیلئے بری امام یا پھر گولڑہ شریف جاتے تاکہ بزرگانِ دین کو خراج پیش کیا جا سکے۔ اس دوران زین نے ان لوگوں کو آپریشنل مقاصد کیلئے مزید ڈیڑھ لاکھ روپے دیے اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ان کیلئے مشرق وسطیٰ میں ملازمت کا بندوبست بھی کرے گا۔
حماد نے پیسوں کی ایک اور قسط راولپنڈی کے میٹرو اسٹیشن سے ایک بوڑھے شخص سے وصول کی، یہ وہی شخص تھا جس نے اسے پہلے آر اے بازار میں رقم ادا کی تھی۔ اس پورے واقعے میں حماد کا کہنا تھا کہ وہ شیخوپورہ سے روانہ ہوتا اور جڑواں شہروں آتا۔ وہ پہلے پبلک ٹرانسپورٹ اور اس کے بعد رینٹ اے کار استعمال کرتا کیونکہ بعد میں پیسے ملنا شروع ہوگئے تھے۔ شیخوپورہ سے اس کا ایک دوست حامد امین حماد کے ساتھ آتا۔ گولیاں چلانے والا شخص ندیم اصغر ورک خوشاب سے تھا۔