اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رئوف کلاسرا نے کہا کہ سب کو یاد ہے کہ عمران خان نے صحافیوں کیخلاف اسٹیبلشمنٹ کو کس طرح استعمال کیا تھا۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیم تمام جرنلسٹوں کے ٹویٹس کو مانیٹر کرتی تھیں کہ فلاں فلاں ٹویٹ ہماری حکومت کیخلاف کیوں کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ لوگ ان ٹویٹس کو ڈیلیٹ کرنے کی خود کوشش کرتے تھے لیکن جب ناکام ہوتے تو پھر آبپارہ کی مدد لی جاتی تھی کہ فلاں فلاں جرنلسٹ کو فون کرکے کہیں کہ فوری طور پر ٹویٹ کو ڈیلٹ کر دے۔
https://twitter.com/Shahzad_IQBALpk/status/1544381976626487303?s=20&t=7J8DcyjVMKLkzM6Bi1xNhA
انہوں نے انکشاف کیا کہ بڑے بڑے صحافیوں کو فون کرکے دھمکیاں دی جاتی تھیں کیونکہ خان صاحب چاہتے تھے کہ ان ٹویٹس ہٹایا جائے۔
سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ ٹی وی شوز اور کالم تو ایک طرف عمران خان کے دور میں کوئی صحافی پی ٹی آئی حکومت کیخلاف کھل کر ٹویٹ نہیں کر سکتا تھا۔
رئوف کلاسرا نے کہا کہ عمران خان ہمیشہ مغرب کی مثالیں دیتے ہیں لیکن کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ برطانوی وزیراعظم اپنے ایجنسیوں کو کہے کہ ان کیخلاف ٹویٹ کو ہٹوایا جائے۔ ایک اچھے وزیراعظم تو کبھی میڈیا اور عدلیہ پر کبھی ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ ان دونوں نے ہی بعد میں ان کے کام آنا ہوتا ہے۔