کیا پاکستان کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے؟

کیا پاکستان کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے؟
ویسے تو میرے پڑھنے اور سیکھنے کے دن ہیں اور لکھنے کی بجائے پڑھنا چاہیے اور یقیناً میں ایسا ہی کرتا اگر میرے پیارے وطن پاکستان کے حالات اچھے ہوتے لیکن جو کچھ چل رہا ہے وہ مجھے آرام سے پڑھنے نہیں دے رہا۔ اچھا قصے کہانیوں کو چھوڑ کر اپنے التجا کی طرف آتا ہوں۔

دو سال پہلے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف جب اپوزیشن میں تھے تو ایک نجی چینل کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے اس وقت کے حکمرانوں یعنی عمران خان اینڈ کمپنی پر دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آنے کا الزام لگاتے ہوئے اس وقت کی حکومت کو سلیکٹڈ کے خطاب سے نوازتے ہوئے ایک نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ چونکہ عمران خان کا دور تھا تو شہباز شریف صرف مطالبہ ہی کر سکتے تھے لیکن مجھے امید ہے کہ آج جب وہ وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہیں تو انہیں اپنا یہ مطالبہ اور خیال یاد ہوگا۔

پہلے تو سادہ الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہے کہ عمرانی معاہدہ کیا ہے؟ میں علمی بحث میں جانا نہیں چاہتا سادہ لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمرانی معاہدہ ریاست اور عوام کے درمیان فراٸض اور ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے۔ یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک مخصوص جغرافیہ یا علاقے میں رہنے والے لوگ کثیر تعداد میں یہ فیصلہ کریں کہ وہ کن شراٸط، قوانین اور کس نظام کے تحت زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ عمرانی معاہدہ میں ایک ملک کے شہری کچھ اصولوں، شراٸط اور اخلاقیات پر اتفاق کر لیتے ہیں جس کے مطابق ان کا سیاسی، مالیاتی، انتظامی،اور عدالتی نظام چلایا جاتا ہے۔

اب آپ مجھے کہیں گے کہ ان میں سے بیشتر معاملات تو ہم آٸین پاکستان میں آج سے تقریباً پچاس برس پہلے 1973 میں طے کر چکے ہیں۔ تو میرا سوال ہوگا کیا اس پر ہم نے سوائے عام غریب اور کمزور شہریوں کے عملدرآمد کیا؟ کیا ریاست پاکستان نے عام شہری کو وہ بنیادی حقوق دیے جو اس میں لکھے گئے ہیں؟

میرا سوال ہوگا کہ کیا اس آٸین کو دو مرتبہ فوجی آمروں نے اپنے بوٹوں تلے روندا نہیں؟ کیا اسی آٸین کی تشریح سیاستدانوں نے اپنی اپنی مرضی اور اپنے اپنے مفاد کے مطابق نہیں کی؟ کیا اسی آٸین کی تشریح ´نظریہ ضروت´ سے متاثر ہو کر نہیں کی گٸی؟ کیا اسی آٸین کے تحت اعلیٰ عدلیہ سے غداری کے مجرم ثابت ہونے والے پرویز مشرف کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا؟

کیا اسی آئین کے تحت آئے روز مرنے والوں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا؟ سیاستدانوں اور فوجی آمروں کو تو چھوڑیں، ہر روز آپ کے آس پاس طاقتور لوگ اس کا مذاق نہیں اڑاتے؟ کیا یہ عمرانی معاہدہ اور آٸین صرف بے بس اور لاچار عام شہریوں کے کنٹرول کے لئے بنایا گیا تھا؟ کیا صرف ہم ہی اس پر عملدرامد کرتے رہیں؟

یہ بھلا کیسا عمرانی معاہدہ ہے جہاں صرف ریاست کا حکم ماننا پڑتا ہے جبکہ ریاست باقی تمام ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہے حتیٰ کہ اگر کسی نے آپ کو قتل بھی کیا تو آپ کا مقدمہ نامعلوم کے خلاف درج کرکے داخل دفتر کیا جاٸیگا جس کے انصاف کی امید آپ روز آخرت کر سکتے ہیں۔ یہ کیسا آٸین ہے جس کے رکھوالے دیکھ کر تحفظ کی بجائے عدم تخفظ کا احساس ہوتا ہے؟

عمرانی معاہدہ تو دراصل تہذیب سے آشنا ہونے والے انسان کا اس انفرادی اور طاقت کے بل بوتے پر چلنے والے نظام سے بغاوت اور ایک تہذیبی معاشرے اور نظام کی طرف ایک کوشش تھی۔ اگر طاقتور عمرانی معاہدے سے بالاتر ہے تو پھر عمرانی معاہدہ کیسا؟ پھر تو وہی قدیم معاشرہ بن گیا نہ جو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے فارمولے پر چلتا تھا۔

کیوں نہ ہم زندہ باد، مردہ باد کی بجائے آرام سے بیٹھ کر ایک نئے مکالمے کا آغاز کریں۔ ہم 75 سال سے یہ بلیم گیم کھیل رہے ہیں اور الزام تراشی کر رہے ہیں۔ کیوں نہ سب اپنی اپنی انائوں کو پاکستان کی خاطر قربان کرکے اس ملک کا سوچیں۔ ایک نئی شروعات کریں جس کی جو غلطیاں ہیں وہ اس کو کھلے دل سے تسلیم کرے اور عزم کریں کہ آئندہ ہم سب نے مل کر پاکستان کا سوچنا ہے۔

اقتدار ایک شخص یا چند لوگوں کی بجائے عوام کو دیا جائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کے فیصلے خود کریں۔ اگر سب نے اسی طرح اپنے اپنے اداروں، اپنی اپنی پارٹیوں، اپنے اپنے فرقوں اور اپنے اپنے لیڈرز کے ہر جاٸز اور ناجاٸز کام کا دفاع کرنا ہے، بھلے اس کی قیمت وطن عزیز کی تباہی ہی کیوں نہ ہو اور مخلص محب وطن عوام جہل اور غفلت کی نیند سوٸی ہوٸی ہو تو پھر پاکستان کا مقدمہ کون لڑے گا؟

کیا شہباز شریف صاحب 'عمرانی معاہدے' پر مکالمے کا آغاز کریں گے؟ کیا اس کا غریب عوام کے فیصلے کرنے والے امیر لوگ ساتھ دینگے؟ اللّہ کرے ایسا ہو لیکن اس کی دور دور تک کوٸی امید نہیں کیونکہ ان حکمرانوں اور اشرافیہ کی اقتدار اور سلطنت اس غلیظ نظام پر قاٸم ہے اور کون بے وقوف ہوگا جو اپنے ذاتی اقتدار اور طاقت کو چھوڑے گا؟