سٹیٹ بینک کے پاس ملک ریاض کے 19 کروڑ پاﺅنڈ کی واپسی کا ریکارڈ ہی نہیں، چونکا دینے والا انکشاف

سٹیٹ بینک کے پاس ملک ریاض کے 19 کروڑ پاﺅنڈ کی واپسی کا ریکارڈ ہی نہیں، چونکا دینے والا انکشاف
سماء ٹیلی وژن سے وابستہ تحقیقاتی صحافی زاہد گشکوری نے اپنی رپورٹ نے چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے مرکزی بینک کے پاس پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے 19 کروڑ پاﺅنڈ کی واپسی کا ریکارڈ ہی نہیں ہے۔

زاہد گشکوری نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سٹیٹ بینک کے پاس برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی اور بحریہ ٹاﺅن کے چیئرمین ملک ریاض کے درمیان ڈیل کے تحت واپس کی جانے والی 19 کروڑ پاﺅنڈ کی بھاری رقم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ عمران خان نے برطانیہ میں بحریہ ٹاؤن کی پکڑی گئی پچاس ارب روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے ان سے ایڈجسٹمنٹ کی اور شہزاد اکبر کے ذریعے پانچ ارب روپے کمیشن وصول کیا۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ 3 دسمبر 2019ء کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کسی کو کچھ بتائے بغیر لفافے میں بند ایک معاہدے کی منظوری لی گئی۔ اس دستاویز کی منظوری کے بعد بحریہ ٹاؤن کے قرضے کے بدلے اس رقم کو ایڈجسٹ کیا گیا۔

خیال رہے کہ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) پاکستانی پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف منی لانڈرنگ سمیت دیگر غیر قانونی ذرائع سے کروڑوں پاؤنڈ اپنے ملک میں لانے کے معاملے کی تحقیقات کر رہی تھی۔ 2019ء میں ملک ریاض اوراین سی اے کے درمیان 19 کروڑ پاؤنڈ کا تصفیہ ہوا تھا۔ یہ رقم پاکستان بھجوائی گئی تھی۔ پاکستانی حکام اور نیشنل کرائم ایجنسی نے یہ رقم ریاستِ پاکستان کے سرکاری بینک میں منتقل کئے جانے کی تصدیق کی تھی۔

سماء نیوز کی ویب سائٹ پر شائع زاہد گشکوری کی رپورٹ کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان کو دونوں فریقین کے درمیان معاہدے کے تحت واپس کی جانے والے 19 کروڑ پاؤنڈ کی پاکستان منتقلی کے حوالے سے چند سوالات ارسال کئے گئے تھے۔

سٹیٹ بینک سے پوچھا گیا تھا کہ کیا 20-2019ء میں بحریہ ٹاﺅن کے چیئرمین ملک ریاض اور برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں واپس کی جانے والی 19 کروڑ پاﺅنڈ کی رقم سے متعلق آگاہی رکھتا ہے؟

دیگر سوالات میں سٹیٹ بینک سے پوچھا گیا تھا کہ 19 کروڑ پاﺅنڈ کی رقم کس حیثیت کی حامل ہے؟ کیا سٹیٹ بینک کی طرف سے غیر قانونی طور پر منتقل ہونے اور معاہدے تحت واپس ہونے والی اس رقم پر ردِعمل کے طور پر کوئی جرمانہ یا ٹیکس عائد کیا؟ کیا سٹیٹ بینک یہ بتا سکتا ہے کہ کس کے حکم سے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے واپس ہونے والی یہ رقم بحریہ ٹاﺅن کو واپس کی گئی؟ مذکورہ 190 ملین پاﺅنڈ کی رقم کس اکاﺅنٹ میں منتقل کی اور رکھی گئی اور کس عہدیدار کے حکم سے ایسا کیا گیا؟ کیا حکومت برطانیہ کی طرف سے مذکورہ رقم براہ راست نیشنل بینک آف پاکستان کے اکاﺅنٹ میں منتقل کی گئی تھی، اگر ایسا ہے تو یہ رقم کتنی تھی اور یہ معاملہ کب پیش آیا؟

سٹیٹ بینک کے حکام نے ان تمام سوالات کے تحریری جواب دیے اور کہا کہ ہمارے پاس برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی اور بحریہ ٹاﺅن کے معاہدے کے نتیجے میں واپس کی جانے والی 19 کروڑ پاﺅنڈ کی رقم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ سٹیٹ بینک کے اکاﺅنٹ میں رقم کی منتقلی کے بارے میں کسی کو معلومات فراہم نہیں کی جا سکتیں، یہ بینک کا رازدانہ معاملہ ہے۔

مصنف ایک نامور صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر ZahidGishkori@ کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔