پیر کو شری گرو ہرگوبند سنگھ کے گروتا گدی دیوس کے موقع پر، جتھیدار نے سکھوں سے لائسنس یافتہ ہتھیار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں حالات اس طرح پیدا ہوگئے ہیں کہ ہر سکھ کو اپنے ساتھ جدید اسلحہ رکھنا چاہیے۔
سردار گیانی ہرپریت سنگھ نے کہا کہ سکھ گتکا سیکھیں اور منشیات سے دور رہیں۔ انہوں نے سکھوں سے کہا کہ موجودہ نازک صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے ساتھ ہتھیار رکھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب سکھ اداروں کو کھلے دل سے جدید ہتھیاروں کی تربیت کا بندوبست کرنا چاہیے۔ گیانی ہرپریت سنگھ امرتسر میں ہزاروں سکھ عقیدت مندوں سے خطاب کر رہے تھے۔
ہر سال ہزاروں سکھ یاتری 6 جون کو امرتسر کے اکال تخت پر جمع ہوتے ہیں۔ عقیدت مند دربار صاحب احاطے کا دورہ کرتے ہیں اور جون 1984 میں گولڈن ٹیمپل کمپلیکس پر ہندوستانی فوج کی کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والوں کو یاد کرتے ہیں۔
اس سال بھی پیر کو امرتسر کے اکال تخت پر 1984 میں بھارتی فوج کے آپریشن بلیو سٹار کی 38 ویں برسی کے موقع پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کے دوران کچھ لوگوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور کچھ نوجوان ہوا میں تلواریں لہرا رہے تھے۔
گیانی ہرپریت سنگھ نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں سکھ اداروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس طرح دھن گرو انگد دیو جی نے کھڈور صاحب کی سرزمین پر مال اکھاڑہ قائم کیا تھا، اسی طرح آج ہمارے اداروں کو سکھ مارشل آرٹس کی اکیڈمیاں اور اکھاڑے بنانے چاہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ 'شوٹنگ رینجز جیسے ہتھیاروں کے جدید تربیتی مراکز بھی قائم کیے جائیں، دوسرے لوگ چھپ چھپ کر اپنے لوگوں کو ہتھیاروں کی تربیت دے رہے ہیں، ہم یہ ٹریننگ سرعام دیں گے۔'
اکال تخت کے جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ نے سکھ برادری سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’آپریشن بلیو اسٹار کے دوران بچے اور بوڑھے دونوں شہید ہوئے‘‘۔
گیانی ہرپریت سنگھ نے ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو بھی نشانہ بنایا اور مبینہ طور پر کہا کہ انہوں نے سکھوں پر جبر کی پالیسی بنائی اور اس کا نتیجہ سال 1984 میں آپریشن بلیو اسٹار کی صورت میں سامنے آیا۔
انہوں نے کہا، "یہ پالیسیاں 1947 میں ہی بنائی گئی تھیں۔ اس کے نتیجے میں 1984 میں اکال تخت اور دیگر مذہبی مقامات پر حملہ ہوا۔"
گیانی ہرپریت سنگھ نے اپنی تقریر میں مسیحیت کے فروغ پر تشویش کا اظہار بھی کیا کہ پنجاب کے دیہاتوں میں چرچ پھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'ہمیں مذہبی طور پر کمزور کرنے کے لیے پنجاب کی سرزمین پر مسیحیت کو پھیلانے دیا جا رہا ہے، یہاں کے دیہاتوں میں چرچ بنائے جا رہے ہیں، یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے'۔
"لیکن اب وقت آگیا ہے کہ دیہاتوں میں مذہب کی تبلیغ کی جائے۔ ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے سکھ مبلغین کو باہر نکل کر مذہب کا پرچار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سکھ مت کو خاص طور پر سرحدی علاقوں میں مضبوط کیا جا سکے۔"
انہوں نے کہا کہ منشیات کی لت پنجاب میں نوجوانوں کو خراب کر رہی ہے۔ نوجوانوں کو منشیات سے دور رکھنے اور ان کی تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے سکھ تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ ریاست کے نوجوانوں کو روایتی اور جدید ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دیں۔
انہوں نے کہا، "انہیں تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنانے کی ضرورت ہے۔ یہودیوں کی طرح، ہمارے نوجوان جس ملک میں جاتے ہیں، وہ اس ملک کی معیشت کو سنبھال لیتے ہیں۔ اگر ہم مذہبی طور پر مضبوط نہیں ہیں، تو ہم مالی طور پر بھی مضبوط نہیں ہیں۔" تب ہم سیاسی طور پر کمزور ہو جائیں گے۔"
انہوں نے سکھ تنظیموں سے کہا کہ "آگے کا راستہ مشکل ہے اور اگر کوئی شخص اس راستے پر چلتا ہے تو اسے مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر ہم تفریق بھول کر اکٹھے ہو جائیں تو یہ راستہ آسان ہو سکتا ہے"۔
1984 میں کیا ہوا؟
6 جون 1984 کو امرتسر کے گولڈن ٹمپل میں بھارتی فوج نے دمدمی ٹکسال کے سربراہ اور اس کے سربراہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے کو، جو پنجاب میں علیحدگی کی مہم چلا رہے تھے، اپنے سینکڑوں مسلح ساتھیوں سمیت مار ڈالا تھا۔
گولڈن ٹیمپل کے احاطے میں ہونے والی اس فوجی کارروائی نے پوری دنیا میں بسنے والے سکھ برادری کے لوگوں کو ناراض کر دیا تھا اور انہوں نے فوج پر اس کمپلیکس کی بے حرمتی کا الزام لگایا۔
آج بھی پنجاب میں ایک گروہ بھنڈرانولے کو شہید لیڈر کے طور پر دیکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے پنجاب بالخصوص امرتسر میں ہر سال کچھ نہ کچھ تناؤ رہتا ہے۔ اس موقع پر گولڈن ٹیمپل میں تقریباً ہر سال خالصتان کی حمایت میں نعرے لگائے جاتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے مطابق اس واقعے میں تقریباً 400 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 87 فوجی تھے۔