عمران خان کی حمایت میں پریس کانفرنس کرنے والے سابق فوجی افسران کون ہیں

09:25 PM, 6 Jun, 2022

علی وارثی
اسلام آباد میں سابق فوجی افسران کی ایک تنظیم Veterans of Pakistan نے پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس کے حوالے سے تنازع اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب اطلاعات آنا شروع ہوئیں کہ انہیں اسلام آباد پریس کلب میں داخل نہیں ہونے دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے پریس کلب کے باہر ہی پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں یوں تو بڑے بڑے دعوے کیے گئے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 90 دن میں الیکشن کروا دیں گے۔ یہ وعدہ نہ تو کرنے کا آئینی طور پر جنرل باجوہ اختیار رکھتے تھے اور نہ ہی یہ افراد ان سے اس قسم کا مطالبہ کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔ یہ واضح طور پر ملک کے آرمی چیف کو ایک غیر آئینی عمل کی ترغیب دلانے کے مترادف تھا۔

کیا Veterans of Pakistan سابق فوجی افسران کی نمائندہ تنظیم ہے؟

اس پریس کانفرنس میں جو کچھ ہوا، اور جو نظارہ اس کے بعد دیکھنے میں آیا، اس کی طرف جانے سے قبل ایک انتہائی اہم حقیقت جو قارئین کے سامنے رکھنا ضروری ہے وہ یہ کہ Veterans of Pakistan یا VoP نامی تنظیم کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔ سابق فوجی افسران کی کوئی بھی نمائندہ تنظیم GHQ سے ایک طریقہ کار کے تحت رجسٹر ہوتی ہے، جو کہ یہ تنظیم نہیں ہوئی۔ ایسی تنظیموں کا مقصد صرف ریٹائرڈ افسران کی بہبود ہوتی ہے۔ یہ تنظیمیں کسی بھی صورت کسی سیاسی سرگرمی میں بطور تنظیم حصہ نہیں لے سکتیں۔ تمام فوجی افسران ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں حصہ لینے کے لئے آزاد ہیں، یہ سیاسی جماعت بنا بھی سکتے ہیں اور کسی جماعت میں شامل بھی ہو سکتے ہیں لیکن وہ فوج کے ساتھ اپنے تعلق کو ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کر سکتے۔ نیا دور کے ذرائع نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ یہ تنظیم ایسے کسی عمل سے نہیں گزری اور رجسٹرڈ نہ ہے۔

پریس کانفرنس کے بعد لیکن ایک عجیب و غریب تماشہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب سابق جرنیل علی قلی خان نے اپنی بات مکمل کر کے سوالات لینے کا اعلان کیا اور سینیئر صحافی مطیع اللہ جان نے سوال کے لئے مائیک آگے بڑھایا تو یہاں مطیع اللہ کے خلاف نعرہ بازی شروع کر دی گئی اور انہیں سوال کرنے سے روک دیا گیا۔ یہاں موجود ایک تحریکِ انصاف کارکن نے ان پر لیگی رہنما مریم نواز کا چمچہ ہونے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ صحافی لیکن بضد رہے کہ مطیع اللہ جان سوال کریں گے کیونکہ یہ ان کا استحقاق ہے مگر پریس کانفرنس بغیر سوالات کے ختم کر دی گئی اور ریٹائرڈ فوجی افسران میں سے کچھ نے واپسی کی راہ لی جب کہ دیگر یہیں پر مطیع اللہ جان اور دیگر صحافیوں سے الجھتے رہے۔ ان افراد نے صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی بھی کی، ان کے خلاف نعرہ بازی بھی کی اور ایک صاحب تو اعزاز سید کو اپنے جنازے کی تیاری کرنے کی دھمکی بھی دے گئے۔

لیکن یہ ریٹائرڈ فوجی افسران ہیں کون؟


جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، VoP نامی تنظیم GHQ میں رجسٹرڈ نہیں لہٰذا یہ تمام سابق فوجی افسران کی نمائندہ تنظیم ہونے کا دعویٰ تو کر نہیں سکتی۔ انفرادی طور پر اگر دیکھا جائے تو ان کی قیادت کرنے والے افسران میں سے زیادہ تر کا تعلق براہِ راست پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔

آصف یاسین ملک

مثال کے طور پر اعزاز سید کو 'اپنے جنازے کی تیاری' کرنے کی دھمکی دینے والے لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک کے سسر سینیئر صحافی وقار ستی کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کے ایم این اے ہیں۔ یہ ماضی میں پاکستان کے سیکرٹری دفاع بھی رہ چکے ہیں۔ اسی دور میں اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد سے لے جانے کا واقعہ بھی پیش آیا۔ پریس کانفرنس کے دوران سوالات پر یہ اعزاز سید کے موبائل کو دھکے بھی دیتے رہے۔ بولے، جب تک یہ رہے گا کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ اس سے قبل مطیع اللہ جان کے سوال پر پریس کانفرنس بھی ختم کی جا چکی تھی۔

https://twitter.com/Wabbasi007/status/1533868660615704576

علی قلی خان

جنرل (ر) علی قلی خان بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے 2012 سے اعلانیہ رکن ہیں۔ ان کے بارے میں دلچسپ معلومات بھی آپ کو دیتے چلیں کہ یہ 1998 میں جنرل جہانگیر کرامت کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے وقت سینیئر ترین جرنیل تھے لیکن ان کو نہ چن کر نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف لگا دیا تھا۔ اس کے علاوہ سینیئر صحافی وسیم عباسی کے مطابق یہ اس وقت اپنے بیٹے خالد قلی خان خٹک کو PTI کے ٹکٹ کے لئے تیار کر رہے ہیں اور اسی لئے عمران خان کے حق میں پریس کانفرنسز کر کے اپنی وفاداری کا یقین دلا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ان کے صاحبزادے جنوبی خیبر پختونخوا کے پارٹی چیپٹر کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔ مطیع اللہ جان سے بات کرتے ہوئے اعزاز سید نے بتایا کہ علی قلی خان کے والد صاحب کو جنرل ایوب خان نے بھی آرمی چیف نہیں لگایا تھا لیکن بینظیر بھٹو اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ علی قلی خان ایک ایسے جنرل تھے جو خود کو سیاسی معاملات میں ملوث کرتے تھے اور ان کی حکومت کو بھی تنگ کیا کرتے تھے۔ نواز شریف نے بھی اپنے دور میں ان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس کی حیثیت سے کردار پر اعتراضات کر رکھے ہیں۔

https://twitter.com/M_Muzammil00/status/1533909620015636488

سیمسن سائمن شیرف

برگیڈیئر (ر) سیمسن سائمن شیرف بھی PTI کے رکن ہیں۔ یہ بھی اس تنظیم کا حصہ ہیں۔ عمران خان کے مطابق 35 پنکچرز والی خبر بھی عمران خان تک انہوں نے ہی پہنچائی تھی۔ آپ کو وہ حامد میر کے انٹرویو میں حیرت انگیز لمحہ تو یاد ہی ہوگا جب عمران خان نے 35 پنکچر کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے یکایک کہہ دیا تھا کہ وہ تو سیاسی بات تھی۔ پویا نے سیمسن کو کہا، سیمسن نے نعیم کو کہا، وہ ٹوئیٹ ہو گیا۔ یہ بھی آج پریس کانفرنس میں کھڑے تھے۔ اتفاق دیکھیے کہ یہی سیمسن شیرف تھے جو وقت ٹی وی پر مطیع اللہ جان ہی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ حقیقت پہلی بار سامنے لائے تھے کہ 2014 میں عمران خان کے دھرنے کے پیچھے جنرل (ر) ظہیر الاسلام تھے اور نواز شریف کے پاس ان کی آڈیو ریکارڈنگز موجود تھیں جو کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سنوائی گئیں اور انہوں نے فوری طور پر حکم دیا کہ اس دھرنے کی حمایت میں جو بھی افسران ملوث ہیں وہ خود کو اس سے دور کر لیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=Lhk5d6gBnd4
مزیدخبریں