1999 کی کارگل جنگ کو پہلی "پاک بھارت ٹی وی پر نشر ہونے والی جنگ" قرار دیا جاتا ہے۔ جب کارگل کی تصاویر بھارتی نیوز چینلوں نے نشر کیں۔ لاکھوں پاکستانی اور بھارتی شہریوں کیلئے معلومات کا بنیادی ذریعہ ڈش اینٹینا کی مدد سے دیکھے جانے والے زی ٹی وی اور دور درشن تھے۔ اس سے بھارت کو جنگی بیانئے اور خبروں کو اپنی مرضی سے پھیلانے کا موقع مل گیا۔ 2019 میں بالاکوٹ حملے اور بھارتی ائر فورس کے ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھمان کے بارے میں پہلی خبر ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹویٹر اکاؤنٹ اور حکومت پاکستان نے جاری کی۔
یہ مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے
1999 میں پاکستان کے پاس ایک طاقت ور الیکٹرانک میڈیا موجود نہیں تھا۔ اس وقت صرف سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی وژن موجود تھا اور زیادہ تر پاکستانی سیٹلائٹ انٹینوں کے ذریعے بھارتی چینلوں، بی بی سی، وائس آف امریکہ اور ڈوئچے ویلے سے معلومات حاصل کرتے تھے۔ پاکستان کو آزاد اور نجی میڈیا کی اہمیت کا احساس جنگ ہارنے کے بعد ہوا۔ ایک ایسا میڈیا جس کی ساکھ اچھی ہو اور بین الاقوامی ناظرین کو خبریں پیش کر سکے۔ اس وقت صدر جنرل پرویز مشرف نے نجی ٹی وی چینلوں کو کام کرنے کیلئے لائسنسوں کا اجرا شروع کیا اور پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا نے تیزی سے ترقی کی۔ بیشمار نیوز روم اور ٹی وی چینل مارکیٹ میں آ گئے۔ موجودہ پاک بھارت کشیدگی اس وقت جاری ہے، اور اس دوران ڈی جی آئی ایس پی آر اور ان کی ٹیم جنگ کا بیانیہ اپنے حق میں کر کے اسے جیت چکے ہیں جبکہ بھارتی سائیڈ اس سے درست طریقے سے نہیں نمٹ پائی۔ حتیٰ کہ بھارتی اہلکار بھی پاکستان سے آئی خبروں کو معلومات کے طور پر استعمال کرتے رہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=eYNHyvskMfk
میرے لئے یہ حیرت کا باعث تھا کہ بھارتی وزارت خارجہ نے اپنی پہلی میڈیا بریفنگ میں میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ کا ذکر کیا اور کہا کہ کیسے آصف غفور نے اپنی ٹویٹ بدلی کہ "دو نہیں بلکہ ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کیا گیا۔" اس وقت تک بھارتی شہری پاکستانی سوشل میڈیا سے ملنے والی معلومات پر انحصار کر رہے تھے جہاں پہلے ہی سے گرفتار شدہ بھارتی پائلٹ ابھینندن کی وڈیو لاکھوں دفعہ شیئر کی جا چکی تھی۔ شاید آئی ایس پی آر کو تھوڑا سا انتظار کرنا چاہیے تھا اور معلومات کو پرکھنے کے بعد اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنا چاہیے تھا۔ شاید اس کی سوشل میڈیا ٹیم کو اپنی ٹویٹس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ بہت سے سوشل میڈیا کے جنگجوؤں نے اپنے اعلیٰ افسران سے معلومات کی جانچ پڑتال کروائے بنا ہی ٹویٹس کر دیے تھے۔
شاید سب سے بہتر اور کامیاب وڈیو سٹنٹ ابھینندن کی وہ وڈیو ہے جس میں بھارتی پائلٹ پاکستانی چائے کو روایتی جنوبی ایشیائی انداز میں چسکیوں کے ساتھ پی رہا ہے۔ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس طرح کی کئی قدریں مشترک ہیں۔
ایک اور مسئلہ پیدا کرنے والا معاملہ ابھینندن کی وہ وڈیو تھی جس میں اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ یہ وڈیو اقوام متحدہ میں پاکستان کیلئے خفت کا باعث بن سکتی تھی۔ بلکہ ایک بحث اس بات پر شروع ہو چکی ہے کہ بطور جنگی قیدی کیا پاکستانی حکام نے اس کے ساتھ انسانی ہمدردی پر مبنی سلوک روا رکھا؟ سوشل میڈیا پر بحث اس بات کے گرد گھومتی رہی کہ پائلٹ کو مناسب خوراک اور طبی سہولیات دی گئیں۔
پہلی وڈیو کے منفی تاثر کو کم کرنے کیلئے دوسری وڈیو جاری کی گئی اور ساتھ ہی یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی کہ کیسے پاکستانی سپاہیوں نے ابھینندن کو مشتعل ہجوم سے بچایا۔ شاید سب سے بہتر اور کامیاب وڈیو سٹنٹ ابھی نندن کی وہ وڈیو ہے جس میں بھارتی پائلٹ پاکستانی چائے کو رویتی جنوبی ایشیائی انداز میں چسکیوں کے ساتھ پی رہا ہے اور دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس طرح کی کئی قدریں مشترک ہیں۔
اس دوران بھارتی حکومت نے حالات پر قابو پانے کی کوشش کی۔ بھارتی سوشل میڈیائی جنگجوؤں کی جانب سے ٹویٹر پر "پاکستان کا جھوٹا دعویٰ" کے نام سے ٹرینڈ بننے شروع ہو گئے جو شام تک "ابھینندن کو وطن واپس لاؤ" کے ٹرینڈز میں تبدیل ہو چکے تھے۔ جبکہ پاکستان میں "ابھینندن کو واپس بھیجو" اور "چائے بناؤ جنگ نہیں" کے ٹرینڈ سوشل میڈیا پر مقبول ہو گئے۔
بھارتی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی منسٹری نے بدھ کو یو ٹیوب سے ونگ کمانڈر ابھینندن کو دکھائے جانے والی 11 وڈیوز ہٹانے کا کہا۔ بھارتی ہوم منسٹری نے دعویٰ کیا کہ یو ٹیوب نے بھارتی حکومت کی درخواست پر عمل کیا لیکن پاکستان کی جانب سے ان وڈیوز کو اپ لوڈ کرنے کا عمل جاری رہا۔
بہت سے بھارتی شہری چیختے چلاتے اپنے ہم وطن نیوز اینکروں سے تنگ آ چکے ہیں جو 1999 کی جنگ کے دور میں جی رہے ہیں اور اسے گلوریفائی کر رہے ہیں۔ ایک عام بھارتی شہری اب زیادہ تر ڈیجیٹل میڈیا استعمال کرتا ہے، 70 سالہ دادی سے لے کر ایک دس سالہ سکول جانے والی بچی تک سب ڈیجیٹل میڈیا کے شوقین ہیں۔ وہ بھارتی چینلوں کے خبر نشر کرنے کا انتظار نہیں کرتے کیونکہ ان کے پاس ٹویٹر محض ایک کلک کی دوری پر موجود ہے۔
یہ امر ہرگز حیران کن نہیں ہے کہ کسی بھارتی ٹی وی چینل نے پاکستانی ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس پریس کانفرنس کو نشر نہیں کیا جس میں وہ بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کے بارے میں بتا رہے تھے۔ اس سے پہلے دو بھارتی ٹی وی چینلوں، اے بی پی نیوز اور ترنگا ٹی وی کو جنرل آصف غفور کی 22 فروری کی پریس کانفرنس نشر کرنے پر شو کاز نوٹس بھیجے گئے۔
پاکستان کے اندر اس مرتبہ دائیں بازو کی بھارت سے نفرت کرتی آوازوں کو روایتی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ بھارتی پرچم کو جلانے کی تصویروں کے بجائے "سے نو ٹو وار" اور "امن کی آشا" کے ٹرینڈ وائرل ہوئے۔ فیصل واؤڈا جیسے سیاستدانوں اور جنگی خبط میں مبتلا ٹی وی اینکرز کا مذاق اڑایا گیا اور انہیں انسانیت سے نفرت کرنے پر شرمندگی کا احساس بھی دلوایا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے بھارت سے بھلے ہی جنگ نہیں جیتی لیکن بیانیوں کی جنگ میں "سچ کے بعد کے" اس دور میں بھارت پر سبقت ضرور حاصل کر لی ہے۔