عورتوں کے نعرے وہی ہیں کہ ’جو اسلام نے انہیں حقوق دیے وہ دیے جائیں‘، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

09:31 AM, 6 Mar, 2020

نیا دور
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عورت مارچ کو رکوانے کے خلاف دائر کی گئی اسلام آباد کے 8 شہریوں کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر ’8 مارچ کو کچھ بھی خلاف قانون ہوتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی‘۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں قائم بینچ نے عمران جاوید عزیز، محمد ایوب انصاری، امیر زیب، قاری سہیل احمد فاروقی، محمد اجمل عباسی، عبدالوحید، بشیر احمد اور میر اویس خان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں نے ایک روز قبل ہی پاکستانی آئین کی مختلف شقوں اور مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں عورت مارچ کو رکوانے کی درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں ’ عورت مارچ‘ کو غیر قانونی اور غیر مذہبی قرار دیتے ہوئے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اسے روکنے کا حکم سنائے۔

درخواست میں وزارت داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد، پیمرا اور پی ٹی اے کو فریق بنایا گیا تھا۔ عدالت نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے 6 مارچ کو سماعت کی جس میں درخواست گزاروں کے وکیل پیش ہوئے، جنہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست گزار خواتین کے حقوق نہیں بلکہ عورت مارچ کے خلاف ہیں۔ درخواست گزاروں کے وکلا نے عدالت کو استدعا کی کہ وہ غیر قانونی طور پر ہونے والے عورت مارچ کو روکنے کا حکم دے۔

درخواست گزاروں کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے معاشرے میں کئی دیگر اسلامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے، عدالت امید کرتی ہے کہ درخواست گزاران تمام اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے بھی عدالت سے رجوع کریں گے۔

جسٹس کا کہنا تھا کہ عورتوں کے نعرے وہی ہیں کہ ’جو اسلام نے انہیں حقوق دیے وہ دیے جائیں‘۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواتین نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اسلام میں دیے گئے اپنے حقوق مانگ رہی ہیں، جب پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنی بات واضح کر دی تو ہم کیسے مختلف تشریح کرسکتے ہیں اور ان کے نعروں کی کیا ہم اپنے طور پر تشریح کرسکتے ہیں؟

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کے وکلا سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ ہم کتنی خواتین کو وراثتی حقوق دے رہے ہیں اور آپ اپنے طور پر ان کے سلوگنز کی تشریح کیسے کر سکتے ہیں؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ وہ نہ مارچ کے خلاف ہیں نہ عورتوں کے حقوق کے خلاف ہیں، عدالت حکم دے کہ مارچ میں جو کچھ ہو وہ آئین و قانون اور اسلام کے دائرے میں ہو۔

وکیل کی وضاحت پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ضروری ہے کہ آپ اس عورت مارچ کو مثبت انداز میں دیکھیں۔ چیف جسٹس نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ اگر 8 مارچ کو کچھ بھی خلاف قانون ہوتا ہے تو عدالت قانونی کارروائی کرے گی، جس کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کر دی۔
مزیدخبریں