برصغیر کا خواجہ طوسی: علامہ تفضل حسین کشمیری

09:23 PM, 6 Mar, 2021

حمزہ ابراہیم
علامہ تفضل حسین کشمیری (1727 تا 1801)، جنہیں خانِ علامہ کا لقب دیا گیا، ایک شیعہ عالم، طبیعات دان اور فلسفی تھے۔ [1]وہ علمی دنیا میں جناب آئزک نیوٹن کی کتاب ’’فلسفہٴ طبیعت کے ریاضیاتی اصول‘‘ اور کئی دوسرے علمی رسالوں کا عربی ترجمہ کرنے کے لئے مشہور ہیں۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم


علامہ تفضل حسین کشمیری 1727 میں سیالکوٹ میں ایک بااثر کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا،کرم اللہ، اپنے وقت کے ایک بہت بڑے عالم تھے اور انہوں نے لاہور کے گورنر معین الملک (میر منو) کے دربار میں وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 13 سال کے تھے کہ علامہ تفضل کا خاندان دہلی منتقل ہو گیا جہاں انہوں نے ممتاز سنی عالم دین ملا نظام الدین سہالوی کے شاگرد ملا وجیہ سے بنیادی منطق اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے میرزا محمد علی سے قدیم ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ 18 سال کی عمر میں اس کا کنبہ لکھنؤ چلا گیا جہاں وہ فرنگی محل کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ جلد ہی ان کے ذہن میں سنی مسلک اور روایتی فلسفہ کی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے اور انہوں نے خود سے تحقیق شروع کر دی۔ اس کے بعد انہوں نے شیعہ مسلک اختیار کیا اورمعقولات میں بطلیموسی فلکیات کی طرف متوجہ ہو گئے۔[2] انہوں نے فرنگی محل میں معروف شیعہ صوفی ملا صدرا کا فلسفہ سیکھا تھا[3]، لیکن جلد ہی اس خیالی شبہ علم  (pseudo-science) کو ترک کر کے حقیقی تعقل میں مشغول ہو گئے۔ سائنس کے تاریخ دان سائمن شیفر لکھتے ہیں:

”نیوٹن کی وفات کے سال میں شمالی سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے تفضل حسین کا تعلق ایک نامور گھرانے سے تھا جو مغل دربار کے قریب تھے اور انہوں نے شیعہ مسلک اختیار کر لیا تھا۔ انہوں نے شاہی دارالحکومت دہلی میں منطق، ریاضی اور فلسفہ طبیعت کی تعلیم حاصل کی۔ 1745 میں ان کے والد اودھ منتقل ہو گئے اور نواب شجاع الدولہ کے دربار میں جلد ہی بلند مقام حاصل کر لیا۔ تفضل نے لکھنؤ کے مشہور مدرسہ دار العلوم فرنگی محل میں داخلہ لیا جو ولندیزی تجارتی کمپنی کی متروک عمارت میں قائم ہوا تھا جسے 1693 میں بادشاہ اورنگ زیب نے قبضے میں لے کر ملا نظام الدین سہالوی کے حوالے کر دیا تھا۔ ملا نظام الدین سہالوی کے تیار کردہ درس نظامی میں طلبہ کو امور مملکت چلانے کے لئے یونانی عربی معقولات اور اسلامی فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دار العلوم کا تعلیمی معیار مغل دربار کے ساتھ ساتھ برطانوی دربار میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ نوجوان تفضل کے گھرانے کا تعلق شرفا کے طبقے سے تھا اور ان کی ہندی فارسی روایت میں عقلی علوم اور زبان و ادب میں مہارت سیاسی طاقت حاصل کرنے کی ایک لازمی شرط تھی، جو انہوں نے دہلی اور لکھنؤ میں تعلیم کے دوران حاصل کی۔ انہوں نے ارسطوئی منطق اور اقلیدس و بطلیموس کی ریاضی کی عربی شروحات میں مہارت کے ساتھ ساتھ فقہ اور مدیریت کا علم حاصل کیا۔ “[4]

علمی خدمات


الٰہ آباد میں نواب شجاع الدولہ نے انہیں اپنے بیٹے سعادت علی خان دوم کا اتالیق مقرر کیا۔ وہاں کچھ اور طلبہ بھی ان کے شاگرد بنے جن میں ایک نوجوان سید دلدار علی نقوی تھے، جو بعد میں نجف چلے گئے اور لکھنؤ واپس آ کر اہل تشیع کے مجتہد اعلم بنے اور غفران مآب کے لقب سے مشہور ہوئے۔ نواب آصف الدولہ کے زمانے میں علامہ کشمیری کلکتہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دربار میں اودھ کے سفیر مقرر ہوئے۔ وہاں انہوں نے یونانی، لاطینی اور انگریزی زبانیں سیکھیں اورمغرب میں برپا ہونے والے سائنسی انقلاب سے آشنا ہوئے۔ انہوں نے بروقت مسلم اور ہندوستانی تعلیمی اداروں کی علمی پسماندگی کو ختم کرنے کے لئے مغربی سائنسدانوں کی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔[5] اٹھارویں صدی عیسوی کے یورپ میں سائنس نے تعلیمی درسگاہوں کے علاوہ کافی ہاؤسز، ہوٹلوں، دکانوں، میلوں اور دیگر عوامی مقامات پر مختلف علمی موضوعات پرہونے والے عوامی مباحثے کی وجہ سے ترقی کی۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کے اختتام تک کلکتہ اسی قسم کے ثقافتی تبادلے کا ایک اہم مرکز بن گیا تھا جہاں جیمز فرگوسن کی کتاب ”بجلی کی مبادیات“، ٹائیبیریس کیالو کی کتاب ”بجلی پر ایک مکمل رسالہ“ اور انہی کی ”بجلی کے طبی استعمال کا عملی اور نظری مطالعہ“، جارج ایڈمز کے”مضامینِ بجلی“، تھامس بیڈڈوس کی ”مصنوعی گیسیں“، جین انٹوئن چیپل کی کتاب ”کیمسٹری“ اور ”فلسفیانہ میگزین“ جیسے علمی جرائد کی گردش جاری تھی، جن کی زبان انگریزی تھی۔ ایشیاٹک سوسائٹی، جو 1784 میں ولیم جونز نے قائم کی تھی، فلسفیانہ مباحثوں کا اہتمام کرتی تھی۔ [5]

ایسے ماحول میں علامہ تفضل حسین کشمیری نے علم کی ترقی یافتہ شکل کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ سائمن شیفر ان کے ذوق و شوق کو بیان کرتے ہیں:

”تفضل صاحب صبح کے وقت اسلامی روایت اور فلسفہ کی تشریحات اور ریاضی کا درس دیتے تھے۔ دوپہر کا کھانا اپنے برطانوی دوستوں کے ساتھ کھاتے۔ پھر سہ پہر اور شام کو اسلامی فقہ کے مختلف مسالک کا درس دیتے۔ کمپنی کی زبان پر تسلط حاصل کرنے کے لئے پہلے تو انہوں نے ’انگلینڈ کی تاریخ‘ نامی کتاب پڑھنا شروع کی لیکن جلد ہی اسے چھوڑ دیا۔ ان کے سابق دوست ولیم بلین صاحب، جوبعد میں لکھنؤ میں معالج تعینات ہوئے، نے ان کے لئے مترجم کا کردار ادا کیا۔ بلین نے اینڈرسن کے نام خط میں لکھا کہ

’عام طور پر تفضل صاحب روزانہ میری مدد سے انگریزی کتابیں پڑھنے میں ایک یا دو گھنٹے صرف کرتے ہیں۔۔۔ جدید فلکیات ان کو بہت پسند ہے۔۔۔ کیا آپ ان کے لئے سائنس یا ریاضی کی عالی شاخوں کی کچھ کتابیں بھیج سکتے ہیں؟‘

ریوبن بورو صاحب اور ان کے دوستوں کے توسط سے تفضل صاحب نے زیادہ مشکل علوم پر کام شروع کیا۔ ان میں اٹھارہویں صدی کی ریاضی اور نظری طبیعات کی کتب اور رسالے شامل تھے، ان میں ویرسائیڈ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ماہر برطانوی ریاضی دان ولیم ایمرسن صاحب کی کتاب مکینکس (چھاپ 1769) بھی شامل تھی، ایک ایسی نصابی  کتاب جو طلبہ کو گلیلیو کے نظریۂ حرکت اور ریاضیاتی تعقل سکھانے کے سلسلے میں قابل اعتماد تھی۔ تفضل صاحب نے وولویچ میں رائل ملٹری اکیڈمی میں ریاضی کے پروفیسر تھامس سمپسن کے رسالہ الجبرا (چھاپ 1745) اور فرانسیسی ریاضی کے تجزیہ کار گیلوم ڈی ایل ہاپیٹل کے رسالہ تکونی قطعات (چھاپ 1707) کو بھی حل کیا۔“[6]

آثار


انہوں نے مندرجہ ذیل کتب تصنیف کیں: [2]

  1. اپولونس کی تکونی قطعات کی شرح

  2. الجبرا پر دو مقالے

  3. دیوفانت کی تکونی قطعات کی شرح

  4. سر آئزک نیوٹن کی فلسفہٴ طبیعت کے ریاضیاتی اصول کا عربی ترجمہ

  5. طبیعیات پر ایک کتاب

  6. مغربی فلکیات سے متعلق ایک کتاب


ڈاکٹر سائمن شیفر لکھتے ہیں:

”نیوٹن کا ترجمہ کرنے کی امنگ یقیناً قابل تحسین ہے۔ تفضل صاحب کے کلکتہ آمد کے وقت نیوٹن کی لاطینی زبان میں لکھی گئی کتاب کا انگریزی (اینڈریو موٹ، 1729) اور فرانسیسی (مارکس دی شاتلے، 1759) زبانوں میں ترجمہ ہو چکا تھا۔ بظاہر عربی ترجمے کا کام 1789 کے وسط میں شروع ہوا اور ریوبن بورو صاحب کی حوصلہ افزائی کے ساتھ جاری رہا۔ ستمبر 1789 میں ولیم جونز نے مرہٹہ سردار سندیا کے دربار میں اس وقت کے برطانوی نمائندے کے ذریعہ ولیم پامر کو بتایا تھا کہ ’ان کے دوست‘ تفضل صاحب نیوٹن کے عربی ترجمے کی تیاری کر رہے تھے۔ کام کی پیشرفت کی اطلاعات تفضل صاحب اینڈرسن کو اور ریوبن بورو صاحب شور کو لکھ بھیجا کرتے تھے۔ ریوبن بورو کے آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے علامہ تفضل کو اس کتاب پر لکھے گئے اپنے حاشیے کا ترجمہ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ انہوں نے نومبر 1790 میں ایشیاٹک سوسائٹی میں کہا کہ

’تھوڑا بہت وقت جو میں نکال پایا ہوں ۔۔۔ وہ نیوٹن کے آثار پر حاشیہ لگانےاور ایک بہت ہی باصلاحیت مقامی (یعنی تفضل صاحب) کو سمجھانے میں صرف ہوتا رہا ہے، جو ان کا عربی زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں۔‘

تفضل صاحب کے لئے یہ برطانوی عقلی فلکیات میں مہارت حاصل کرنے اور انھیں اپنی علمی روایت میں شامل کرنے کا موقعہ تھا۔ ان کے شیعہ ساتھیوں نے اس فلکیات میں پیشرفت، سیاسی طاقت اور درباری سرپرستی میں تعلق کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا۔“[7]

ان میں سے کچھ کتابیں انیسویں صدی کے لکھنؤ میں شیعہ حلقوں میں پڑھائی گئیں۔[2] ان کے جانشین سعادت علی خان دوم نے لکھنؤ میں ایک رصد گاہ کی بنیاد رکھی۔ نواب غازی الدین حیدر اور نواب نصیرالدین حیدر نے بھی ان علوم کو سیکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ [8]

جیمز ڈِن وِڈی کی شاگردی میں


1792 میں سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنس دان جیمز ڈِن وِڈی نے چین میں اپنی قسمت آزمائی لیکن وہ شہنشاہ کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔ 1794 میں وہ بہتر امکانات کی امید میں کلکتہ آ گئے اور قدرتی سائنس کے سلسلے میں عوامی دروس کا ایک سلسلہ شروع کیا اور سائنسی مظاہر کے تجربے منعقد کیے، جن میں شریک ہونے والوں کو ٹکٹ خریدنا ہوتے تھے۔ انہوں نے ریاضی، فلکیات اور جیومیٹری کے نسبتاً مشکل موضوعات پر خصوصی درس کا بھی اہتمام کیا۔[5] ان کا خیال تھا کہ ریاضی کی زبان استعمال کیے بغیر علم کی گہرائی میں نہیں اترا جا سکتا۔ انہوں نے کہا:

”علم کے صرف ان شعبوں میں جن پر ریاضی کا اطلاق کیا گیا ہے، فلسفہ طبیعت اپنی تحقیقات کو یقین، کامیابی اور افادیت کے ساتھ انجام دینے پر فخر کر سکتا ہے۔“

ان کا ماننا تھا کہ ریاضی سیکھے بغیر کوئی شخص علمی طور پر سکول کے بچوں کی سطح سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔[5] علامہ تفضل حسین کشمیری 1789 میں ہی جناب آئزک نیوٹن کی فلسفہ طبیعت کے ریاضیاتی اصول کا عربی میں ترجمہ کر چکے تھے۔ 24 دسمبر 1794 کو جب ڈِن وِڈی صاحب کو کلکتہ میں تدریس کا آغاز کیے ایک ماہ ہو چکا تھا، بوڑھے علامہ تفضل نے ان کے خصوصی درس میں داخلہ لے لیا۔ ڈِن وِڈی صاحب نے پہلےانہیں روشنی کے قواعد اور پھر جیومیٹری کی تعلیم دی۔ علامہ تفضل کو ترقی یافتہ ریاضی سیکھنے میں بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ ڈِن وِڈی صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے:

”بڑی عجیب بات ہے کہ جو آدمی (الفاظ کی دنیا میں) اتنی نظریہ پردازی کرتا ہے وہ اطلاقی ریاضی سے اس قدر لاعلم کیوں ہے؟‘‘[9]

علامہ پر اودھ کی سفارت کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی تھا، چنانچہ انہیں کچھ عرصہ کے لئے درس کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ لکھنؤ میں نواب ان کے جدید سائنسی علم کے سیکھنے اور ترجمہ کرنے میں بہت زیادہ مشغول ہونے پر ناراض ہو گئے تھے۔[10] نومبر 1795 میں درس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور اس بار ڈِن وِڈی صاحب نے انہیں تجرباتی فلکیات کی تعلیم دی۔ درس میں دو طرفہ تبادلے کا پہلو بھی تھا، علامہ تفضل نے بھی ڈِن وِڈی صاحب کو قدیم ہندوستانی اور عربی فلکیات کے متعلق آگاہ کیا تھا۔ [5]

قدامت پرستوں کی مخالفت


مشہور عالم شاہ عبد العزیز دہلوی ولد شاہ ولی اللہ دہلوی نے انہیں ’ملحد کامل‘ قرار دیا تھا۔ [11]

وفات


1799 میں ان پر ذہنی دباؤ کی وجہ سے فالج کا حملہ ہوا جس کے نتیجے میں جسم کے بیشتر حصے نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ وہ 3 مارچ 1801 کو بنارس سے لکھنؤ جاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ شیعہ سیاح میرزا ابو طالب خان نے لندن میں ان کی وفات کی اطلاع ملنے پر اپنے سفرنامے میں یہ مرثیہ لکھا۔[12]

افسوس! علم کا جام تمام ہو گیا
کان گہرے مطالب سننے کی لذت سے محروم ہو گئے
وہ خوش ذائقہ مشروب  کہ جس کا ذائقہ ابھی تالو سے لگا ہوا ہے
جو عقل کی پیاس کو اور بھڑکاتا ہے
یہ زندگی تو عاریتاً لیے ہوئے لباس کی مانند ہے
شب کی زلفیں پریشان ہیں
ستارے شبنم کے آنسو بہا رہے ہیں
تر آنکھیں لیے،غم میں ڈوبے ہوئے ہیں
چونکہ وہ، ان کا محبوب فلسفی، مر گیا ہے
بھلا کون؟
جس نے اسلام کے پیروکاروں کے لئے ان کے قوانین بیان کیے
ان کے فاصلے، ان کے مدار اور اوقات،
جن کا ایک حصہ عظیم کوپرنیکس نے کشف کیا
اوراس سے بیشتر عظیم نیوٹن نے مقام ثبوت کو پہنچایا
لیکن، اب رونا بیکار ہے
اب ہم بے جان ہاتھوں اور خالی آنکھوں سے
ان کے آثار کو دیکھتے ہیں
ہمارا معلمِ اول چلا گیا ہے




حوالہ جات



  1. شیخ محمد اکرام، ”رود کوثر“، صفحہ 639 تا 640، ادارہ ثقافت اسلامیہ، جون (2005)۔

  2. Rizvi, "A Socio-Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India", Vol. 2, pp. 227–228, Ma’rifat Publishing House, Canberra, Australia (1986).

  3. Syed Ali Nadeem Rezavi, "Philosophy of Mulla Sadra and its Influence on India", Religion in Indian History, pp.177–186, New Delhi (2007).

  4. Simon Schaffer, "The Asiatic Enlightenments of British Astronomy", in: "The Brokered World: Go-Betweens and Global Intelligence, 1770–1820", p. 53, Watson Publishing International LLC, (2009).

  5. Savithri Preetha Nair, “Bungallee House set on fire by Galvanism: Natural and Experimental Philosophy as Public Science in a Colonial Metropolis (1794–1806)”; In: The Circulation of Knowledge Between Britain, India and China; pp. 45–74, Brill, (2013).

  6. Simon Schaffer, "The Asiatic Enlightenments of British Astronomy", in: "The Brokered World: Go-Betweens and Global Intelligence, 1770–1820", p. 57, Watson Publishing International LLC, (2009).

  7. Simon Schaffer, "The Asiatic Enlightenments of British Astronomy", in: "The Brokered World: Go-Betweens and Global Intelligence, 1770–1820", pp. 60-61, Watson Publishing International LLC, (2009).

  8. Mushirul Hasan, "Resistance and Acquiescence in North India: Muslim Response to the West", Rivista Degli Studi Orientali, Vol. 67, Fasc. 1/2, pp. 83-105, (1993).

  9. Savithri Preetha Nair, “Bungallee House set on fire by Galvanism: Natural and Experimental Philosophy as Public Science in a Colonial Metropolis (1794–1806)”; In: The Circulation of Knowledge Between Britain, India and China; p. 67, Brill, (2013).

  10. Savithri Preetha Nair, “Bungallee House set on fire by Galvanism: Natural and Experimental Philosophy as Public Science in a Colonial Metropolis (1794–1806)”; In: The Circulation of Knowledge Between Britain, India and China; p. 69, Brill, (2013).

  11. Rizvi, "A Socio-Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India", Vol. 2, pp. 229, Ma’rifat Publishing House, Canberra, Australia (1986).


Rizvi, "A Socio-Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India", Vol. 2, pp. 229, Ma’rifat Publishing House, Canberra, Australia (1986).
مزیدخبریں