اس ’ہم خیال‘ گروپ کا مقصد اس نواز شریف کی 'میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا' والی ہوائی پرواز کے مقابلے میں جماعت کو ’خلائی‘ حقیقتوں سے بدستور ہم آہنگ رکھنا تھا ۔ ظاہر ہے کہ اس’ نظریے ‘ کو نواز شریف کی ہلہ شیری اور تائید حاصل تھی کہ ان کی اٹھان بھی اسی خمیر سے ہوئی تھی لیکن شہباز شریف کی بدولت اس گروہ نے اب تک اتنا فعال اور متوازی کردار ادا کیا ہے جو اپنی بات کہنے اور منوانے تک کا بھی اختیار رکھے ہوئے ہے۔ پرویز مشرف سے مفاہمت تو نہیں مانی گئی لیکن میاں صاحب کی کمزور ہوتی ہوئی صحت ،پوزیشن اور بیرون ملک قیام کی بدولت باجوے والی بات مان لی گئی۔ اول الذکر میں حکومت بھی گئی ،جان کے لالے بھی پڑگئے اور جماعت بھی تقسیم ہو گئی لیکن اسکے باوجود سیاسی سرمایہ بھی برقرار رہا اور قیام پاکستان کے بعد پہلی بار کسی مسلم لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کی برابری کو بھی چیلنج کیا جبکہ اب کی صورت میں حکومت بھی ملی ، پارٹی بھی چلتی رہی لیکن اس تیزی سے سیاسی کیپیٹل کی بربادی ہوئی کہ پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
’ش لیگ‘ کے باقاعدہ وجود میں آنے کا اس سے زیادہ ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضے کے باوجود شہباز شریف کا متعدد مرتبہ اچھے الفاظ میں ذکر کیا اور شہباز نے وزیراعظم بننے کی آفرز خود گنوائیں کہ اگر وہ بھائی کا ساتھ چھوڑ دیں تو مشرف اُن کو وزیر اعظم بنانے کے لئے تیار تھے کہ آمر کو معلوم تھا کہ اس سے پیشتر شہباز’ کو ‘ اس گروپ کو لیڈ کر رہے تھے جو نواز شریف کو 'سمجھانے' پر مصر تھا۔ آخر پانی ڈھلوان پر ہی سفر کرتا ہے؛ یہ کریڈٹ تو لیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے بھائی کے ساتھ بے وفائی نہ کر کے ’اوپن‘ گروپ قائم نہیں کیا ، لیکن مشرف کو جاوید ہاشمی وغیرہ کو آفر کرنے کی جرأت کیوں نہیں ہوئی اور سگے بھائی اور سب سے بڑے صوبے کے سربراہ کو پرویز مشرف کی یہ فراخدلانہ پیشکشیں!
جلا وطنی کے خاتمے پر نواز شریف کے پرزور بیانیے اور ججز کا ساتھ دینے پر بے نظیر کی موت اور پرویز الہی کی کار گردگی کے باوجود مسلم لیگ ن نے 2008 کے الیکشن میں پنجاب میں فتح حاصل کی تو وطن میں رہ کے ماریں کھانے اور قربانی دینے والوں کو پیچھے کر کے شہباز شریف اور ان کے ’یار غار ‘ چودھری نثار کو آگے کردیا گیا جنہوں نے صحیح طور پر ش لیگ کو پروان چڑھایا۔ ’اچھا ‘موسم دیکھ کر آنے والوں کی اس گروپ نے خوب آؤ بھگت کی اور اپنے گروپ کو مضبوط بنایا۔
اس گروہ کی شہزوری کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ 2013 کے الیکشن میں جماعت کی جیت پر چودھری نثار یا شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی باتیں زور پکڑ گئیں اور تاثر دیا گیا کہ پنجاب میں شہباز کی پرفارمنس اور مرکز میں چودھری نثار کی پیپلز پارٹی بارے میں روایتی ضیا دشمنی کی بدولت فتح حاصل ہوئی ہے لیکن جماعت کے ن گروپ نے اس کو ناکام بنایا کہ اصلی لیڈر نواز شریف ہی ہیں ۔اس پورے عرصہ اقتدار میں وزیر اعلی اور وزیر داخلہ کی ناراضگیاں اور پراسرار باتیں نوٹ کی جا سکتی ہیں جس نے جماعت کو حکومت میں ہونے کے باوجود کمزور پوزیشن پہ رکھا۔ راحیل شریف کی ایکسٹینشن کا معاملہ ہو، عمران سے ڈیل ہو یا پاناما، اس فعال گروپ کے ہاتھوں ن لیگ اپنا بیانیہ اور سکہ منوا نہیں سکی اور آخر نواز شریف نا اہل ہوئے اور وزیر داخلہ مریم کا بہانہ کرکے گھر جا بیٹھے۔
اندازہ لگائیں کہ جب نواز شریف اور ان کی بیٹی سزا پانے کے بعد وطن واپس آۓ تو وزیر اعلی پنجاب اور جماعت کے صدر اپنے بیٹے کے ہمراہ ائیرپورٹ تک نہ پہنچ سکے۔ دھاندلی کے شور میں وزیر اعظم عمران خان بنے تو شہباز شریف نے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ سنبھالا اور نواز شریف کی حسب معمول جیل بھگائیں کے بعد ش لیگ اس حد تک مضبوط ہوگئی کہ ایکسٹینشن بھی دے دی گئی۔ گوجرانوالہ جلسے میں بڑے میاں کے نام لینے کے باوجود ملاقاتیں بھی ہوئیں اور دانہ ڈالتے ہی حکومتی سربرا ہ کی اپنی ’انمول' خواہش کو زرداری کے ساتھ پورا بھی کیا گیا۔
حکومت سنبھالنے کے بعد پنجاب کی پگ اپنے ہونہار کو پہنائی جو کہ پرویز الہی کے مقابلے میں ایسی مکھی ثابت ہوا کہ پھونکوں سے ہی اُڑ گیا ۔پنجاب حکومت کھونے اور ضمنی انتخابات میں بدترین شکست پر سب سیاسی بیانیے ہوا ہو ہی گئے تھے تو وزیر اعظم آرمی چیف تقرری پر ملنے والی دھمکیوں پر ڈرتے ڈرتے لندن جا پہنچے اور بڑی مشکل سے بھائی جان کی پپیوں جھپیوں کے بعد’کورونا بچاؤ ‘کے ساتھ ملک آۓ اور آخر نئے آرمی چیف کا بھاری پتھر اٹھایا۔ نواز شریف نے حمزہ شہباز کو لندن بلا کر سائیڈ لائن کر دیا۔ فرزند کے بعد حکومت جاتے ہی ایک ایسی ملاقات باپ سے بھی متوقع ہے جو اپنا پورا سیاسی سرمایہ کھونے کے بعد ش لیگ کو دفنا دے گی ۔
شیخ رشید اپنی حکومت کے دوران اکثر یہ دعویٰ کرتے پاۓ جاتے تھے کے ن میں ش نکلے گی۔ نکلتی تو شاید بہتر ہوتا کہ اس نے اندر کھاتے ن، عین، غین سب کو نگل لیا ہے اور اب تو ن لیگ کا بھی ڈھانچہ ہی نظر آرہا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ بچی کھچی نون لیگ کو اور چوری کھانے والے مجنوئوں کو اب بہر حال ایک ہی مرکز تلے رہنا پڑے گا۔ دو کشتیوں میں سوار جماعت اس ہی طرح ڈوبتی ہے جیسے آجکل نظر آرہی ہے اور ہر دفعہ سو پیاز اور سو جوتے کی کہاوت پر پورا اترتی ہے ۔ 'ش' جاتے جاتے ن کو بھی لٹا گئی ہے۔ اب جو لیگ ابھرے گی شاید اس میں کوئی لاحقہ نہ ہو۔