جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے طیبہ تشدد کیس میں سابق جج راجہ خرم اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔
ملزموں کے وکیل نے دوران سماعت یہ دلچسپ مؤقف اختیار کیا کہ طیبہ نے یہ خود تسلیم کیا کہ اس پر تشدد نہیں ہوا جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے ہوئے کہا، طیبہ کی عمر 10 سال تھی جب عدالت میں اس پر جرح کی گئی۔ آپ ایک معصوم بچی سے جرح کر کے کیا امید رکھتے ہیں؟
انہوں نے ملزموں کے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، آپ کے بھی یقینی طور پر بچے ہوں گے، کیا آپ کے اچھے سکولوں میں زیرتعلیم بچے ایسی جرح کا سامنا کر سکتے ہیں؟ جب کہ طیبہ تو ایک گائوں کی ان پڑھ بچی تھی۔
ملزموں کے وکیل نے کہا کہ طیبہ پر تشدد نہیں ہوا تھا بلکہ یہ زخم حادثاتی تھے اور عدالت میں اس نے طوطے کی طرح رٹا ہوا بیان ریکارڈ کروایا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا، کیا آپ نے طیبہ کی تصاویر دیکھی ہے؟ کیا وہ جعلی ہیں؟ کیا ساری دنیا آپ کے موکل کی دشمن ہے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا، طیبہ ملزموں کے گھر سے برآمد ہوئی۔ آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ اس کے جسم پر موجود زخم حادثاتی تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے موکل نے کچھ تو کیا تھا؟
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔ واضح رہے کہ ملزموں کے وکلا نے دلائل مکمل کر لیے ہیں جب کہ وکلائے استغاثہ کل دلائل پیش کریں گے۔
واضح رہے کہ 27 دسمبر 2016ء کو اسلام آباد میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر میں گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا واقعہ منظرعام پر آیا تھا۔
پولیس نے 29 دسمبر کو جج راجہ خرم اور ان کی اہلیہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا اور ملزموں کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کر لیا۔
یاد رہے کہ طیبہ کے والدین نے مارچ 2017 میں ملزم راجہ خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کر دیا تھا تاہم صلع نامے کی خبر نشر ہونے کے بعد چیف جسٹس نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لے لیا تھا۔