ڈاکٹر فرقان کی اہلیہ جن کا اب کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے کے مطابق انہوں نے ڈاکٹر کو کال کی جنہوں نے گھر آ کر ڈاکٹر فرقان کا معائنہ کیا اور انہیں اسپتال منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کئی اسپتالوں میں کالز کیں لیکن ہر طرف سے ان کو یہی جواب ملتا کہ ان کے بیڈز فل ہو چکے ہیں اور وہ کرونا کے مزید مریض نہیں لے سکتے۔
بالآخر ان کی اہلیہ خود ہی ان کو ایمبولنس کے ذریعے اسپتال کے لئے لے کر نکلیں۔ ان کے مطابق انہوں نے کئی اسپتالوں کے چکر لگائے اور آخر میں SIUT بھی گئیں لیکن کہیں پر ان کے شوہر کو اسپتال میں داخل نہیں کیا گیا بلکہ ہر طرف انہیں یہی بتایا جاتا رہا کہ ان کے پاس وینٹیلیٹرز موجود نہیں۔ کئی اسپتالوں کے چکر لگانے کے بعد ایمبولنس کے ڈرائیور نے ایک جگہ لے جا کر گاڑی روک دی اور کہا کہ پہلے وہ پتہ کریں کہ کس اسپتال جانا ہے، اس کے بعد ہی وہ گاڑی چلائے گا۔ ڈاکٹر فرقان کی اہلیہ اس ڈرائیور کی منتیں کرتی رہیں کہ وہ انہیں کسی اور اسپتال لے جائے لیکن اس موقع پر ڈاکٹر فرقان نے ان کو روکا اور کہا کہ انہیں گھر واپس لے جایا جائے کیونکہ اس طرح تو یہ لوگ انہیں مار دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فرقان کو وہ گھر واپس لے کر آئیں تو اس وقت ان کی حالت انتہائی خراب ہو چکی تھی اور پھر وہیں ان کے ہاتھوں میں ان کے شوہر نے جان دے دی۔
ڈاکٹر فرقان کی وفات کا ہولناک واقعہ جہاں سننے والوں کی آنکھوں کو نم کر رہا ہے، وہیں بہت سے سوال بھی کھڑے کر رہا ہے۔
سوال نمبر 1: وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے اطلاعات مرتضیٰ وہاب کے مطابق، کراچی شہر میں اس وقت 263 وینٹیلیٹرز کی سہولت موجود ہے جب کہ صرف 17 سے 18 مریض ایسے ہیں جو اس وقت وینٹیلیٹر پر ہیں۔ تو پھر ڈاکٹر فرقان کو ہر اسپتال سے انکار کیوں کیا جاتا رہا؟
سوال نمبر 2: ایسی کوئی ہیلپ لائن قائم کیوں نہیں کی گئی جو لوگوں کو یہ اطلاعات فراہم کرے کہ کس اسپتال میں کتنے وینٹیلیٹر موجود ہیں اور ان کو کس سطح کی میڈیکل سہولت کس اسپتال میں میسر ہو سکتی ہے؟
سوال نمبر 3: ڈاکٹر فرقان کی اہلیہ کے مطابق وہ ایمبولنس میں تھیں اور ایمبولنس کے ڈرائیور، معاون یا اسپتالوں کے عملے میں سے کسی نے ان کے شوہر کو سٹریچر پر ڈال کر اسپتال کے اندر لے جانے کی زحمت نہیں کی اور انہوں نے اکیلے اپنے شوہر کو سٹریچر پر ڈالا۔ سوال یہ ہے کہ عملے کو سہولیات اور تربیت کیوں فراہم نہیں کی گئی اور ایمبولنس کے اندر کوئی ڈاکٹر کیوں موجود نہیں تھا؟
سوال نمبر 4: ایمبولنس کے اندر ایسا کوئی نظام کیوں موجود نہیں تھا جس کے ذریعے وہ کسی ہیلپ لائن پر رابطہ کر کے یہ پتہ کر سکے کہ مریض کو کس اسپتال میں لے کر جانا چاہیے؟
سوال نمبر 5: اب سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی انکوائری کرے گی اور پاکستان میڈیکل اسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا بھی کہنا ہے کہ SIUT میں 15 وینٹیلیٹرز کی سہولت موجود تھی اور ان میں سے صرف 4 پر مریض تھے تو پھر بقایا 11 کس کے لئے بچا کے رکھے گئے تھے؟
سوال نمبر 6: اتنی بڑی تعداد میں ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈکس کے مثبت ٹیسٹ آنے کے باوجود ڈاکٹروں کے لئے کوئی قوٹہ کیوں مختص نہیں کیا جا رہا؟
سوال نمبر 7: آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر ہزاروں کی تعداد میں کیسز کے سامنے آنے کے باوجود حکومت مسلسل اس بات پر مصر کیوں ہے کہ حالات قابو میں آ چکے ہیں؟
میڈیا کا بے رحمانہ کردار:
اے آر وائے پر کاشف عباسی نے ڈاکٹر فرقان الحق کی اہلیہ سے فون پر بات کی تو وہ غم سے نڈھال تھیں اور ان کی تکلیف ان کی آواز میں واضح سنائی دے رہی تھی۔ لیکن کاشف عباسی اس موقع پر بھی اپنے چینل کے ایجنڈے کی ترویج سے باز نہیں آئے اور مسلسل خاتون سے سیاسی نوعیت کے سوالات کرتے رہے۔ انہیں سندھ حکومت کے دعوے یاد دلاتے رہے۔ وہ کہتی رہیں کہ مجھے کچھ نہیں پتہ، میرے ساتھ تو یہ ہوا ہے، میں انصاف اللہ پر چھوڑتی ہوں۔
بعد ازاں کاشف عباسی ان سوالات کے جوابات صوبائی حکومت کے عہدیداران، وفاقی حکومت کے عہدیداران، ڈاکٹرز اور دیگر افراد سے بھی پوچھتے رہے۔ تو کیا یہ ضروری تھا کہ غم سے ہلکان ایک ایسی عورت سے بھی بار بار یہ سوالات کیے جاتے جن کے بارے میں لاعلمی کا اظہار وہ پہلی دفعہ میں ہی کر چکی تھیں؟ میڈیا کو ایسے حالات میں نہ صرف ایک مخصوص حکومتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے سے باز رہنا چاہیے بلکہ مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ تو خصوصی طور پر اس کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ کاشف عباسی ایک سینیئر اینکر ہیں۔ یقیناً انہیں ان اخلاقیات کے بارے میں پتہ ہے۔ لیکن ان کی بے حسی نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔