کمیشن نے اپریل کے مہینے کے اعداد و شمار میں موقف اپنایا ہے کہ گذشتہ مہینے کمیشن نے چھ آفراد کا سراغ لگایا جبکہ کل پانچ آفراد اپنے گھروں کو باحفاظت لوٹ آئے ہیں۔
کمیشن نے کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے عدالتی کارروائیاں موخر کردی ہیں اور اپریل کے مہینے میں صرف اسلام آباد میں 26 عدالتی کارروائیاں ہوئیں۔ جبکہ دیگر شہروں میں عدالتی کارروائیاں نہیں ہوسکیں۔ ملک میں جبری طور پر گمشدہ افراد کے نعشوں کے حوالے سےاعداد و شمار میں واضح کیا گیا ہے کہ ملک میں 2011 سے اب تک 213 افراد کی نعشیں ملی ہیں، جن میں 66 کا تعلق پنجاب سے، 53 کا تعلق سندھ سے، 48 کا تعلق خیبر پختون خوا سے، 28 کا تعلق بلوچستان سے، 07 کا تعلق اسلام آباد سے، 09 کا تعلق سابقہ فاٹا سے جبکہ دو افراد کا تعلق آزاد جموں و کشمیر سے ہے۔
کمیشن نے 2011 سے اب تک واپس اپنے گھروں کو لوٹنے والے افراد کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت تک 2016 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں جبکہ 6604 خاندانوں نے جبری گمشدگیوں کے رپورٹس درج کئے ہیں جن میں 4476 کیسز پر کارروائیاں ہوئی ہیں۔
کمیشن نے اسلام آباد کی E-8 سیکٹر سے تعلق رکھنے والے اختر عباس ولد زوار محمد دین کی جبری گمشدگی کا کیس بھی اُٹھایا جس پر راولپنڈی ڈویژن کے پولیس ایس ایس پی نے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہوئے موقف آپنایا کہ ملزم جبری طور پر گمشدہ نہیں ہوئے تھے بلکہ ملزم پر ایک ایف آئی ار درج تھا جس پر پولیس نے اُن کو گرفتار کیا تھا اور وہ آڈیالہ جیل میں پابند سلاسل ہے۔
کمیشن کے اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ اس وقت فوج کے زیر نگرانی حراستی مراکز میں 822 افراد قید ہیں۔ جن میں 82 کا تعلق پنجاب سے، 33 کا تعلق سندھ سے، 619 کا تعلق خیبر پختون خوا سے، 17 کا تعلق اسلام آباد سے، 69 کا تعلق سابقہ فاٹا سے، ایک کا تعلق آزاد جموں اینڈ کشمیر سے، ایک کا تعلق گلگت بلتستان سے جبکہ بلوچستان کا کوئی بھی شہری اس وقت فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مرکز میں قید نہیں۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں جبری طور پر گمشدہ افراد کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ جس پر بلوچستان کے کچھ اسمبلی ممبران نے اعتراض کیا کہ کمیشن کے اعداد و شمار ملک کے جبری گمشدگیوں کے صحیح اعداد و شمار سے مخلتف ہیں۔ جس پر کمیٹی نے جبری طور پر گمشدہ افراد کے کمیشن کے ممبران کو آئیندہ اجلاس میں بریفنگ کے لئے طلب کیا۔