انٹرنیشنل سروس فار ہیومن رائٹس کی اس تازہ رپورٹ میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران سینکڑوں کیسز کا تجزیہ کیا گیا جہاں ایسے افراد جنہوں نے اقوام متحدہ کے اداروں کو حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات کرنے اور انہیں اجاگر کرنے میں مدد کی تھی، کو ریاستوں کی جانب سے طرح طرح کی دھمکیوں اور انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔رواں ہفتے جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ رضاکاروں، وکلا اور سول سوسائٹی کے دیگر افراد جو اقوام متحدہ کے حقوق پر مبنی مختلف سیشنز اور تحقیقات میں مشغول ہیں، کو دھمکیوں، ہتک عزت، مجرمانہ تحقیقات، سفری پابندیوں، نظربندی، جسمانی حملوں سمیت تشدد کے وسیع پیمانے پر انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔آئی ایس ایچ آر کے شریک ڈائریکٹر میڈیلین سنکلیئر نے ایک بیان میں کہا کہ ' انسانی حقوق کے محافظ اگر اپنے ممالک میں پائی جانے والی خلاف ورزیوں تشدد اور بدسلوکیوں کے بارے میں معلومات کو محفوظ طریقے سے شیئر نہیں کرسکیں تو پورا نظام مجروح ہوگا۔
آئی ایس ایچ آر انسانی حقوق کے محافظوں کی مدد پر مرکوز انسانی حقوق کی ایک اہم تنظیم ہے۔ اسکی موقر رپورٹ، جس نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی 2010 سے 2020 کے درمیان اس طرح کی انتقامی کارروائیوں کے بارے میں سالانہ رپورٹس میں دیے گئے 709 کیسز کا جائزہ لیا گیا یہ کہتی ہے کہ متعدد ممالک تواتر کے ساتھ یہ جرم کرتے ہیں۔ بحرین اس فہرست میں سب سے اوپر ہے جہاں اس دوران 64 کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں، اس کے بعد وینزویلا، ویتنام اور مصر اس فہرست میں شامل ہیں۔ بحرین اور وینزویلا اس وقت اقوام متحدہ کے کی 47 رکنی انسانی حقوق کونسل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے بین الاقوامی سروس نے خبردار کیا ہے کہ ممکنہ طور پر انتقامی کارروائیوں کی تعداد کو کم سے کم رپورٹ کیا گیا ہے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زیادہ تر انتقامی کارروائیوں میں جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاسوں میں حصہ لینے والے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔اقوام متحدہ کی مختلف حقوق کی کمیٹیوں کے جائزوں میں حصہ لینے والے اور اقوام متحدہ کے حقوق سے متعلق تفتیش کاروں سے بات کرنے والوں کو بھی اکثر نشانہ بنایا گیا جبکہ چند انتقامی کارروائیوں میں ایسے افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا جو اقوام متحدہ کے امن آپریشنز میں شامل تھے اور جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کونسل کے ساتھ تھے۔
پاکستان بھی اس فہرست میں شامل ہے
اس وقت جو ممالک انسانی حقوق کونسل کے ممبرز ہیں ان میں سے پاکستان بھی ایک ہے۔ پاکستان پر بھی بلوچستان سمیت فاٹا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگتا رہتا ہے۔ گو کہ انسانی حقوق کے حوالے سے بھارت کا کردار شرمناک ہے تاہم وہ پاکستان میں ان خلاف ورزیوں کو عالمی سطح پر اٹھاتا رہا ہے۔ جبکہ ان خلاف ورزیوں کے حوالے سے میڈیا کے کچھ حصے اسے رپورٹ بھی کر دیتے ہیں۔
بلوچستان، فاٹا اور دیگر علاقوں میں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی
مثال کے طور پر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ایک رپورٹ میں بی بی سی نے لکھا کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا دعوٰی ہے کہ 2015 کے دوران صوبے بھر سے مزید 463 افراد جبری طور پر لاپتہ کیے گئے اور 157 بلوچ افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ تاہم بلوچستان کے محکمہ داخلہ کا دعویٰ ہے کہ مجموعی طور پر129 افراد کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں جن میں سے 40 بلوچ تھے۔وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنما فرازنہ مجید بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اب بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے۔’ پاکستان میں کوئی بھی ادارہ ہماری داد رسی نہیں کرتا جس کی وجہ سے بیرون ملک آ کر آواز اُٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ بھی آرمی کی رٹ ہے۔ اس صورت حال میں ریاست نے مجبور کیا ہے کہ ہم زیادہ متحرک ہوں۔
صحافیوں کے خلاف مقدمات اور مخالف آوازیں دبانے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال
ہیومن رائٹس واچ نے 2020 سال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال خوفناک حد تک خراب ہو چکی ہے۔ پاکستان کے ادارے اس وقت 12صحافیوں کو زیر تفتیش کیئے ہوئے ہیں اور ان سب کا ایک ہی جرم ہے کہ وہ حکومت اور ریاست کی غلطیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ رپورٹ میں ابصار عالم۔ اسد علی طور، بلال فاروقی کا ذکر ہے جن کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔
صحافیوں پر حملے اور پراپیگنڈا مہم
ایک جانب تو ریاستی اداروں کو استعمال کرکے کیسز بنائے جا رہے ہیں تو دوسری جانب صحافیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایاجا رہا ہے جبکہ انہیں اغوا کر کے ہر اسرار حالات میں واپس چھوڑ دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ابصار عالم کو گولی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ گھر کے سامنے ایک پارک میں واک کر رہے تھے۔ اس حملے سے قبل انہوں نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کا نام لے کر ایک ٹویٹ کی تھی جس میں انہوں نے بتایا کہ کیسے جنرل فیض حمید نے ان پر بطور چئیرمین پیمرا تحریک لبیک کے دھرنوں کی اشتعال انگیز کوریج کرنے کے لیئے دباؤ ڈالا تھا۔
دوسری جانب مطیع اللہ جان ہیں جنہیں اس وقت ریاستی اداروں کی جانب سے اس وقت دن دیہاڑے اغوا کیا تھا جب وہ اپنی اہلیہ کے سکول کے باہر ان کا انتظار کر رہے تھے۔ اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہوگئی تھی اور ملک میں شور و غل بپا ہونے کے بعد انہیں ایک ویران مگر مرکزی شاہراہ پر چھوڑ دیا گیا تھا۔
باجوڑ، اندرون سندھ اور بلوچستان میں صحافیوں پر حملے اس کے علاوہ ہیں۔ تاہم اس سب کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ان صحافیوں کو ایک جانب سے تو غیر قانونی طور پر زیر عتاب لایا جاتا ہے تو دوسری جانب انہیں ہی ایجنٹ، نوسر باز، ڈرامہ باز اور جھوٹا قرار دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابصار عالم پر قاتلانہ حملے کے بعد سوشل میڈیا پر دیکھا گیا۔ نیا دور کی تحقیق کے مطابق ابصار عالم کے اس دعوے کہ انہیں گولی ماری گئی ہے کو جھٹلانے کے لیئے ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے پراپیگنڈا کیا گیا جو کہ اسٹیبلشمنٹ سے منسلک سمجھے جاتے ہیں اور اکثر حکومت وقت کی خدمت کے لیئے سرگرم رہتے ہیں۔ یہ اس سب کی رپیٹ ٹیلی کاسٹ تھی جو کہ سینئر صحافی حامد میر پر حملے کے وقت انہی حلقوں کی جانب سے سنا یا کہا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کا پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں پر حملوں اور قتل کے حوالے سے جائزہ
ستمبر 2020 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے پاکستان میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کے خلاف تشدد کی دھمکیوں کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ان کے تحفظ کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا کہ اس کی پاکستان میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کے خلاف آن لائن اور آف لائن تشدد پر اکسانے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں کم از کم چار صحافیوں اور بلاگرز کو ان کی رپورٹنگ کی بنا پر قتل کیا گیا۔
انسانی حقوق کے سب سے ممتاز ادارے کے ممبران کے لیئے تو یہ ناقابل قبول طرز عمل
انٹرنیشنل سروس فار ہیومن رائٹس کے شریک ڈائریکٹر نے کہا کہ 'اقوام متحدہ کے سب سے ممتاز انسانی حقوق کے ادارے کے ممبران کے لیے یہ ناقابل قبول طرز عمل ہے'۔اس رپورٹ میں اہم تجویز کونسل کے لیے امیدواروں کے بارے میں غور و فکر میں تبدیلی تھی۔ کہا گیا کہ 'جب ایچ آر سی کے ممبران کا انتخاب کیا جاتا ہے تو ووٹنگ کرنے والے ممالک کو غور کرنا چاہیے کہ آیا امیدوار ریاست کا کوئی دھمکیوں اور انتقامی کارروائیوں کا کوئی ریکارڈ تو نہیں'۔