قائد کا پاکستان مذہبی انتہا پسندوں کا پاکستان بن کر رہ گیا

07:10 AM, 6 May, 2022

عظیم بٹ
یوں تو لٹریچر میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو واقعی معاشرتی سطح پر حقیقت ثابت ہوتیں ہیں مگر ایک معروف مثال ہے جو کہ سعادت حسن منٹو کی جانب سے کہی گئی اور میں کئی عرصہ اس پر یقین بھی کرتا رہا مگر پاکستان میں حالیہ حالات دیکھ کر اور پھر تاریخ سے اپنے ماضی کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہاں منٹو صاحب غلطی کر گئے۔ منٹو صاحب کہتے ہیں کہ "بھوکے کا مذہب روٹی ہوتا ہے" سننے میں یہ بات درست لگتی ہے اور شاید دنیا میں اکثریت اس کے مطابق ہی ہو مگر ملک خداداد میں یہ بات سو فیصد غلط ثابت ہوئی ہے، یہاں پر عقیدت کے نام پر متشدد پن اور تمام اصول زندگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مذہب کا استعمال کیا جانا ابتداسے ہی جاری ہے۔ یہاں عوام کو روٹی تو دور کی بات ہے عقیدت کا ایسا پاٹ پڑھایا گیا ہے کہ اپنی جان و مال کے علاوہ آل اولاد کو بھی شخصیات پر قربان کرنا عین مذہبی اور ثواب کے لائق کام سمجھتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا کہ 'برصغیر پاک و ہند میں اسلام نہیں پہنچا صرف عقیدت ہی پہنچی ہے'۔ بد قسمتی یہ ہے کہ انگریز اس بات کو سمجھ گیا کہ یہاں عقیدت ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے استعمال کے بغیر اس سرزمین پر قابض رہنا ممکن نہیں لہذا وہ خود تو نہ سہی مگر اپنے کارندوں کو مذہبی لبادے پہنا کر گدی نشینیاں دلوا کر ہم پر مسلط کر گیا، جن کے خاندان والے آج بھی اس ملک خداداد پر قابض ہیں۔

فیلڈ مارشل ایوب خان نے جب آئین کا پہلا ڈرافٹ مرتب کیا تو اس میں "ریپبلک آف پاکستان" کا استعمال کیا گیا مگر اتنا شدید اور متشدد قسم کا رد عمل نام نہاد ٹھکیداروں کی جانب سے آیا کہ اسے "اسلام جمہوریہ پاکستان" کر دیا گیا۔ بعدازاں یحیٰی خان کے ایل ایف او (لیگل فریم ورک) کو جب نافذ کیا گیا تو اس میں باقاعدہ یہ کہا گیا کہ کوئی جماعت اسلامی آئیڈولوجی کے خلاف احکامات نہیں دے سکتی، حالانکہ اسلام اور اسلام کے شعائر کا یحیٰی خان یا اس کی کابینہ کو کتنا پتہ تھا یا وہ اس پر کتنا عمل پیرا تھے وہ تاریخ کے تمام طالب علم بخوبی جانتے ہیں مگر اسلام کو سیاسی مفاد اور اپنی رٹ برقرار رکھنے کے لئے استعمال کیا گیا اس کے بعد کے ادوار میں بھی اسی طرح کی روایت برقرار رہیں جب بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کے لئے کھولے گئے نائٹ کلب اور بارز کو بند کیا گیا اور مکمل پابندی عائد کی گئی ایسے اقدامات کر کہ ملک پر موجود حکمران یہ سمجھتا رہا کہ میں اسلامی حلقوں میں مضبوط ہو جاؤں گا اور میری سلطنت مرتے دم تک قائم رہے گی مگر ایسا کبھی نا ہوا، ہمیشہ جس نے آ کر مذہب کا استعمال کر کے اپنی رٹ قائم کرنا چاہی اس کے خلاف مذہبی تنظیموں نے ہی اہم کردار ادا کیا۔

ذولفقار علی بھٹو جیسا سیکولر شخص بھی ان کے ہاتھوں مجبور ہوا اور بہت سے مذہبی فیصلے کر گئے مگر جب ان کے خلاف متحدہ سیاسی اتحاد بنا تو اس کو لیڈ کرنے والوں نے پھر سے مذہب کا نام استعمال کیا اور بھٹو کے خلاف یہ کردار کشی کی گئی کہ یہ جیسے مسلمان ہی نہیں اس میں بھی نام نہاد مذہبی جماعتیں پیش پیش رہیں یہاں تک کہ تاریخ میں اس کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ بھٹو صاحب کو پھانسی کے تختے سے اتار کر جب پھٹے پر رکھا گیا تو خصوصی ادارے سے دو افراد نے آ کر ان کے مخصوص اعضاء کو دیکھا کہ آیا یہ مسلمان بھی تھے کہ نہیں، اس بات کا تذکرہ بی بی سی کے ایک پرانے آرٹیکل سے بھی مل جاتا ہے۔

اب حالات یوں مختلف ہو گئے ہیں کہ سیاست میں مذہب کا استعمال بھی جدید ہو گیا ہے۔ پہلے بات بیانات کی حد تک تھی اب سوشل نیٹ ورکنگ نے اسے باقاعدہ لبادے اوڑھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ضیاءالحق کے بعد اس ملک میں باقاعدہ طور پر نام لے کر جس سربراہ مملکت نے مذہب کا استعمال اپنی کرسی بچانے کیلئے کیا ہے وہ سابق وزیر اعظم عمران خان تھے جنہوں نے عوام کی نبض کو قابو کرنے کی بھرپور کوشش کی اور مجھے یہ کہنے میں کوئی آر بھی نہیں کہ وہ مذہب کا کارڈ کھیل کر کافی حد تک اس میں کامیاب رہے۔ میرے اپنے خاندان کے باریش بزرگوں سمیت 75 سالہ بزرگ خواتین بھی عمران خان کے اسلاموفوبیا والے چورن کو خرید چکی ہیں، ہاتھ میں تسبح اور شلوار قمیض کے نیچے پشاوری کھیڑی نے کافی حد تک پچھلے 3 سالوں میں عمران خان کے ماضی کے 60 سالہ پلے بوائے والی امیج کا خاتمہ ضرور کیا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کے سب سے تجزبہ کار سیاسی جماعتیں جنہوں نے خود کو بھی مذہبی انتہاء پسندی سمیت دیگر حوالے سے استعمال ہوتے دیکھا اور اپنے خلاف بھی یہ کارڈ پلے ہوتے دیکھا وہی نواز لیگ اور پیپلز پارٹی آج اقتدار کو بچانے کی خاطر مذہبی کارڈ کھیل کر ملک میں انتشار کی دبی ہوئی ہوا کو بڑھا رہے ہیں مسجد نبوی میں ہونے والے واقع پر ذمہ داروں کا تعین سعودی حکومت کو کرنا تھا جو انہوں نے کیا مگر پاکستان میں اس واقع کو لے کر توہین کی گستاخی کی ایف آئی آر کا عمران خان سمیت تحریک انصاف کی قیادت پر کاٹا جانا انتہائی تشویش ناک ہے جو ملک میں ایسی فرقہ وارانہ اور مذہبی متشدد پن کی جنگ کو ہوا دے گا جس کے بعد شاید ملک کا دوبارہ پاوں پر کھڑا ہونا ممکن نا ہو۔

حکومت کو چاہیئے کہ خبردار رہے اور ہوش کے ناخن لے، سیاسی مقدمات کو سیاست میں استعمال کریں مذہب جیسے پاک عقائد کو سیاست میں لا کر اپنے مفاد کا ذریعہ نا بنائیں جس سے آپ کی دنیا بھی سیاہ ہو گی اور آخرت تو بھرپور خراب ہو گی۔
مزیدخبریں