سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے گرفتاری سے بچنے کے لیے عدالت میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کر دی۔ شیخ رشید نے ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ میں درخواست دائر کی۔
شیخ رشید کی درخواست پر کچھ دیر بعد جسٹس ملک شہزاد احمد خان کریں گے۔ اس سے قبل مسجد نبویؐ میں پیش آئے واقعہ پر فیصل آباد میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، شیخ رشید، فواد چوہدری، شہباز گِل، قاسم سوری، انیل مسرت اور صاحبزادہ جہانگیر سمیت ڈیڑھ سو افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
فیصل آباد میں درج پرچے کے مطابق انیل مسرت اور صاحبزادہ جہانگیر واقعے کے وقت مدینے میں موجود تھے۔مقدمے میں توہینِ مذہب کی دفعہ سمیت 4 دفعات لگائی گئی ہیں، جن کے تحت عمر قید بھی ہوسکتی ہے۔
راولپنڈی کے تھانہ گوجر خان اور تھانہ سول لائن میں بھی شیخ رشید کے خلاف مقدمات درج کرنے کی درخواستیں دے دی گئی ہیں۔علاوہ ازیں جوڈیشل مجسٹریٹ نے شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
پولیس نے جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر شیخ راشد شفیق کو اٹک کے ڈیوٹی جج کی عدالت میں پیش کیا جہاں عدالت نے پولیس پر برہمی کا اظہار کیا۔عدالت نے پولیس سے سوال کیا کہ شیخ راشد شفیق کا موبائل فون برآمد کیوں نہیں کیا گیا اس پر پولیس نے مؤقف اپنایا کہ شیخ راشد شفیق کا موبائل فون سعودی عرب میں رہ گیا ہے۔ عدالت نے پولیس کو موبائل کا آئی ایم ای آئی نمبر ٹریس کرکے موبائل فون عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
دورانِ سماعت پولیس نے شیخ راشد شفیق کے مزید ریمانڈ کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مال مقدمہ موبائل فون عدالت میں پیش کریں۔جوڈیشل مجسٹریٹ نے مقدمے کا ریکارڈ پیش نہ کرنے پر بھی پولیس پر اظہاربرہمی کیا اور پولیس کی مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کو مسترد کرکے ملزم کو 14 روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔