مولانا عبدالخبیر آزاد نے چارج سنبھالتے ہی ایک اچھا آغاز کیا اور پہلے سال اس طریقہ کار پر پوری طرح عمل درآمد کو یقینی بنایا جو شوال کے چاند دیکھنے کے لیے لازم سمجھا جاتا ہے اور یہی بڑی وجہ تھی کہ ملک کو کئی سالوں کی تقسیم در تقسیم کے بعد ایک متفقہ روزہ اور عید الفطر کا تحفہ دے دیا گیا۔
لیکن بدقسمتی سے یہ روایت زیادہ دیر قائم نہ رہی اور صرف ایک اجتماعی عید کے بعد اس سال پھر قوم میں دراڑیں نظر آئیں بلکہ اس مرتبہ تو یہ تقسیم کچھ زیادہ ہی گہری دکھائی دی کیونکہ ملک بھر میں تین عیدیں منائی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسی کیا وجہ تھی کہ گذشتہ سال پورے پاکستان نے ایک ہی دن روزہ رکھا اور عید بھی منائی اور اس سال وہ غلطی پھر دہرائی گئی؟
سوال تو یہ بھی ہے کہ ہر سال ایک مسلمان ملک میں عید کیوں سیاست کی نذر ہو جاتی ہے اور کیا اس تنازعے کو بڑھاوا دینے میں صرف سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہے یا مذہبی جماعتوں کا بھی کوئی کردار بنتا ہے؟
اس پر بات کرنے سے پہلے یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ اس سال خیبر پختونخوا میں حکومت کی طرف سے سرکاری سطح پر عید منائی گئی۔ عید کا اعلان مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی صوبائی شاخ یا زونل کمیٹی کو ملنے والی شہادتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔
اتوار کی رات صوبائی زونل کمیٹی کی طرف سے جب عید کا اعلان ہوا تو اس کے بعد کمیٹی کے سربراہ کا مـختلف ٹی وی چینلز کو دیا گیا انٹرویو بھی موجود ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ صوبے کے مختلف حصوں سے انہیں 16 شہادتیں موصول ہوئی ہیں اور ان ہی شہادتوں کی بنیاد پر ہلال عید کا اعلان کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں رات گئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چئیرمین سے رابط بھی کیا گیا لیکن اس وقت تک وہ اپنا اجلاس ختم کرکے گھر جا چکے تھے۔
دوسری طرف صوبائی حکومت کے مطابق صوبہ بھر میں کل 130 افراد نے عید کا چاند دیکھنے کی گواہی دی جو کہ عام طور پر ایک بڑی تعداد سمجھی جاتی ہے۔
پاکستان میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ماتحت چار صوبائی شاخیں کام کرتی ہیں جو ہر صوبہ میں قائم ہے جسے زونل رویت ہلال کمیٹی کا نام دیا گیا ہے۔ تمام زونل کمیٹیوں کے اراکین کی تقرری مرکزی چئیرمین کے حکم پر عمل میں لائی جاتی ہے اور یہ تمام کمیٹیاں مرکز کو جوابدہ بھی ہوتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کا کام صوبائی سطح پر چاند دیکھنے کے انتظامات کرنا اور مرکز کو شہادتوں کے حوالے سے معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر مرکز کا اپنی صوبائی شاخ پر اعتماد نہیں رہا، اگر ان کی شہادتوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو پھر ان کمیٹیوں کے وجود کا کیا فائدہ؟ زونل کمیٹی کی شہادتوں سے انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے مرکزی رویت ہلال کمیٹی اپنے مینڈیٹ سے انحراف کردے؟
یہ صرف ایک مرتبہ نہیں ہوا بلکہ یہ کئی مرتبہ اور بار بار ہو چکا ہے اور مفتی منیب الرحمان کے دور میں تو قریباً ہر سال میٹھی عید کا ذائقہ ہمیشہ سے کڑوا ہی رہا۔
اب ذرا اس بات کا بھی جائزہ لیتے ہیں کہ آخر دیر تک اجلاس منعقد کرنا کیوں ضروری ہوتا ہے؟َ
آپ کو یاد ہوگا گذشتہ سال مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس قریباً رات بارہ بجے تک جاری رہا تھا اور پھر رات گئے اجتماعی عید کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس مرتبہ عبدالخبیر آزاد نے مفتی منیب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پھر وہی غلطی دہرائی اور رات نو بجے سے پہلے پہلے اجلاس ختم کردیا گیا تھا۔
یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کے جن علاقوں میں چاند نظر آنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں وہ یا تو دور دراز پہاڑی علاقے ہیں یا ساحلی مقامات ہوتے ہیں جو مرکزی شہروں سے دور واقع ہیں۔ ایک تو وہاں سے شہادتوں کے آنے میں وقت لگتا ہے۔ پھر دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان شہادتوں کو پرکھنا اور اس کی جانچ پڑتال کرنا بھی ایک اہم اور حساس معاملہ ہوتا ہے۔
یہ کام بغیر تحقیق کے آنناً فانناً نہیں ہو سکتا کیونکہ پوری امت کے روزے اور سالانہ تہوار کا سوال ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس تمام طریق کار میں وقت لگتا ہے جس کا ادراک مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اکابرین کو بطریق احسن ہونا چاہیے لیکن لگتا یہ ہے کہ اس سال کمیٹی سے جلد بازی ہوئی۔
لیکن اس سب سے بڑی اہم بات یہ کہ ہر سال مملکت خداداد میں عید کے چاند پر سیاست اب ایک معمول بن چکا ہے جس میں ناصرف سیاسی جماعتیں ملوث ہیں بلکہ بدقسمتی سے اس میں مذہبی جماعتوں کا بھی بڑا کردار رہا ہے جن کی سیاست کے باعث دانستہ یا نادانستہ طورپر اسلامی تہواروں کا مذاق اڑا جارہا ہے۔
اتوار کی رات جب خیبر پختونخوا حکومت نے عید کا اعلان کیا تو صوبے کے قائم مقام گورنر اور سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق غنی نے اپنی حکومت اور جماعت کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے مرکز کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں ان کا ایک مفصل وڈیو بیان بھی سوشل میڈیا کا زینت بنا۔
ہزارہ ڈویژن کے لوگ ابتدا ہی سے مرکز کے ساتھ روزہ اور عید کرتے آئے ہیں لیکن یہاں یہ معاملہ روایت سے زیادہ ایک شرعی مسئلہ ہے جس پر کسی صورت کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ اگر مشتاق غنی یہ روایت توڑ دیتے تو یقینی طور پر ان کے ووٹ بینک پر اثر پڑتا۔ لہذا انہوں نے شرعی حکم کو بالائے طاق رکھ کر روایت کو زندہ رکھا اور وہ بھی محض چند ووٹوں کی خاطر۔
لیکن اس سے بڑا تعجب اور تاسف اس بات پر ہوا جب یہ سنا کہ جید عالم دین اور ایک بڑے مذہبی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی ڈیرہ اسمعیل خان میں وہاں کی روایت کے مطابق مرکز کے ساتھ عید منائی۔
اب اگر ایک عامی اور کم علم شخص اس طرح کرتا ہے تو ہم شاید ان سے گلہ نہ کرتے لیکن اگر مولانا فضل الرحمان صاحب جیسے ایک عالم دین، جسے لاکھوں لوگ فالو کرتے ہیں وہ ایسا کرینگے تو پھر ان سے سوال کا حق تو بنتا ہے؟
یہاں حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ زونل کمیٹی کے سربراہ قاری عبیدالرؤف مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو تو بار بار درخواست کرتے رہے کہ ایمرجنسی اجلاس طلب کیا جائے لیکن ڈیرہ اسمعیل خان میں بیٹھے ہوئے اپنے قریبی رشتہ دار اور پارٹی سربراہ مولانا فضل الرحمان کو یہ نہیں کہہ سکے کہ پیر کے روز آپ کا روزہ رکھنا مشکوک ہو گیا ہے کیونکہ 16 افراد نے تو ان کے ہاتھ پر چاند دیکھنے کی شہادت دی تھی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قاری عبیدالرؤف مولانا فضل الرحمان کے برادر نسبتی بتائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مفتی پوپلزئی کی سربراہی میں قائم مسجد قاسم علی خان کی ہلال کمیٹی کے بیشتر اراکین بھی جمعیت علمائے اسلام کے قریبی حامی سمجھے جاتے ہیں۔
کیا ہم مولانا فضل الرحمان صاحب سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب نہیں کہ ان کی عید ٹھیک تھی یا ہماری غلط تھی؟
شیخ رشید کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن مجھے کبھی کبھی لگتا ہے جیسے اس کا کوئی مذہب بھی نہیں ہو۔