مخصوص نشستوں کا معاملہ: نشستیں دوسری جماعت کو دینے کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعت کو اتنی ہی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں جتنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے ان کی بنتی ہیں۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا۔ قانون میں یہ کہاں لکھا ہے کہ انتخابی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت تو ہے۔

01:10 PM, 6 May, 2024

سید صبیح الحسنین

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے معاملہ پر سنی اتحاد کونسل کی اپیل کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا ہے۔

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر اپیل پر سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔ 

سپریم کورٹ کے حکم امتناع کا اطلاق ان مخصوص نشستوں پر ہوگا جو کسی پارلیمانی سیاسی جماعت کو فارمولا کے تحت تناسب سے زائد دی گئیں۔ 

اس طرح سپریم کورٹ کے حکم امتناع کا اطلاق صرف 23 مخصوص نشستوں پر ہوگا۔ 

کیس پر حتمی فیصلہ آنے تک سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے تحت ان 23 نشستوں پر آنے والے ارکان اسمبلی کسی بھی قسم کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

اس طرح فی الوقت حکومتی اتحاد دو تہائی اکثریت سے محروم ہوگئی ہے۔ اسی لیے جسٹس منصور علی شاہ کی عدالت سے ملنے والے حکم امتناع کو حکومتی اتحاد کے لیے ایک بڑا اپ سیٹ قرار دیا جارہا۔ 

اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہونے کی وجہ سے آئینی تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کیس کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت لارجر بینچ کے سامنے رکھنے کی استدعا کی۔ 

عدالت نے لارجر بینچ کے لیے معاملہ تین رکنی ججز کمیٹی کو بھی بھجوا دیا ہے۔ 

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت نے لارجر بنچ تشکیل دینے کی استدعا کر دی۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ اپیلیں لارجر بنچ ہی سن سکتا ہے لیکن عدالت نے بنچ پر اعتراض مسترد کر دیا۔

مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے بھی بنچ پر اعتراض کر دیا گیا۔

وکیل خواتین ارکان اسمبلی نے عدالت کو بتایا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کا مقدمہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس 5 رکنی بنچ سن سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ کیس آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت اپیل میں سن رہے ہیں، موجودہ کیس آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر نہیں ہوا۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ابھی تو اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ ہونا ہے، قابل سماعت ہونا طے پا جائے پھر لارجر بنچ کا معاملہ بھی دیکھ لیں گے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آزاد جیتے ہوئے اراکین اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ 7 امیدوار تاحال آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا حصہ ہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے صرف الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آزاد اراکین کو کتنے دنوں میں کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد اراکین قومی اسمبلی کو تین روز میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے تو کیا اس کے امیدوار نمائندگی کے حق سے محروم ہو جائیں گے؟

فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہ لے اور آزاد جیتے ہوئے اراکین اس جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں کی تقسیم کس فارمولے کے تحت ہوتی ہے؟ سیاسی جماعت کیا اپنی جیتی ہوئی سیٹوں کے مطابق مخصوص نشستیں لے گی یا زیادہ بھی لے سکتی ہے؟

فیصل صدیقی نے بتایا کہ کوئی سیاسی جماعت اپنے تناسب سے زیادہ کسی صورت مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کو جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ بچی ہوئی نشتسیں انہی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی، ہمیں عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے، اصل مسئلہ ہی عوامی مینڈیٹ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ انتخاباتی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہی سوال لے کر الیکشن سے قبل میں عدالت گیا تھا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک بات تو طے ہے جس جماعت کی جتنی نمائندگی ہے اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کا مینڈیٹ کسی اور کو دے دیا جائے؟

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا۔

وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور ڈی جی لاء الیکشن کمیشن عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک سوال ہے کیا بانٹی گئی نشستیں دوبارہ بانٹیں جا سکتی ہیں؟ دوسرا یہ کہ مخصوص نشستیں اس لیے بانٹی گئیں کہ ہاؤس پورا ہو، اس میں کہاں غلطی ہے؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کسی امیدوار نے سیاسی جماعت جوائن نہیں کی تھی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آزاد امیدواروں کی نشستیں دیگر جماعتوں کو بانٹی جاسکتی ہیں؟

جسٹس مصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کا آغاز بھی ایسے ہی ہوتا ہے کہ عوامی امنگوں کے مطابق امور انجام دیئے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیا دوسرے مرحلے میں مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر مزید کچھ سیٹیں بچ جائیں ان کا کیا کرنا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنے تناسب سے تو نشستیں لے سکتی ہیں، باقی نشستیں انہیں کیسے مل سکتی ہیں؟ کیا باقی بچی ہوئی نشستیں بھی انہیں دی جا سکتی ہیں؟ قانون میں ایسا کچھ ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اگر قانون میں ایسا نہیں تو پھر کیا ایسا کرنا آئینی سکیم کے خلاف نہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سوموٹو اختیار سے بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہیں جماعتوں کو نہیں دی؟

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جو کام ڈائریکٹ نہیں کیا جاسکتا وہ ان ڈائریکٹ بھی نہیں ہو سکتا، ایک سیاسی جماعت کے مینڈیٹ کو ان ڈائریکٹ طریقے سے نظر انداز کرنا کیا درست ہے؟

مزیدخبریں