ایچ نائن گراونڈ میں لگے آزادی کیمپ میں بظاہر لوگوں کی تعداد کم تھی اور مارچ کے شرکاء ملحقہ مرکز میں ہوٹلوں پر نظر آئے جبکہ بہت سارے شرکاء مقامی مسجدوں میں نماز ادا کرنے کے بعد براجمان تھے۔
ساٹھ سالہ زرین خان ایک خیمے میں دوسرے ساتھیوں کے ساتھ کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ زرین خان کا تعلق لکی مروت سے ہے اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے جمیعت علمائے اسلام کے مختلف پروگراموں میں شرکت کر رہے ہیں۔
اس سوال پر کہ آپ کے قائدین تو رات کو چلے جاتے ہیں مگر آپ کو اس بارش میں کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ زرین خان کا کہنا تھا کہ”وہ ہمارے بڑے ہیں اور ہمارے قائدین ہیں، ان کا ایک مقام ہے اور ان کی قربانیاں ہم سے زیادہ ہیں۔ “
کیمپ کے اندر جگہ جگہ پر کھانے پینے کے اشیاء کے سٹالز کے ساتھ ساتھ گرم کوٹوں کے سٹالز بھی لگے تھے جہاں مارچ کے شرکاء کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ گرم کوٹوں کی خریداری میں بھی مصروف تھے، کیمپ میں کئی لوگوں کے ساتھ انٹرویو کئے مگر کسی کارکن نے رات کی تکلیف کا شکوہ نہیں کیا اور سب کے عزم اور حوصلے مضبوط تھے، زیادہ تر کی رائے یہی تھی کہ یہ تو چھوٹی تکالیف ہیں ہم تو بڑی بڑی قربانیوں کے لئے آئے ہیں بارش تو کوئی مسئلہ نہیں۔
کیمپ کے اندر اسلام آباد انتظامیہ، وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) اور سول کپڑوں میں ملبوس اسلام آباد پولیس کے اہلکار بھی موجود تھے۔ سی ڈی اے کا عملہ صفائی کے کام میں مصروف تھا۔
اسلام آباد انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے رات کو مارچ کے شرکاء کو ریلیف دینے کے لئے سو جدید خیموں کے احکامات جاری کیے ہیں جو کچھ لمحوں میں اِدھر پہنچ رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مولانا صاحب کا قیام طویل ہے۔
کیمپ میں انتظامیہ اور فلاحی اداروں کی کچھ ایمبولینسز بھی نظر آئیں جس پر اسلام آباد انتظامیہ کے اہلکار نے بتایا کہ کیمپ کے اندر بہت سارے لوگ رات کی بارش کے بعد بیمار ہیں جن کو ریلیف دینے کے لئے انتظامیہ نے میڈیکل کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بارش ہو گئی ہے اور صفائی ستھرائی کا نظام بھی اچھا نہیں اور رش بھی بہت زیادہ ہے تو شاید بیماریوں میں اضافہ ہو جائے، اس لیے انتظامیہ میڈیکل کیمپ لگا رہی ہیں تاکہ لوگوں کو ریلیف دیا جاسکے۔