یہ بات ذہن میں رہے کہ سورج کی روشنی انسانی زندگی اور صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ سورج کی روشنی دن میں آتی ہے۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس زمین پر کئی ایسے علاقے ہیں جہاں لوگ سورج کی شعاعوں کو دیکھنے کے لیے ترستے ہیں۔
آج ہم آپ کو ایک ایسے ہی گاؤں کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں، جہاں پہلے لوگوں کو سورج کی روشنی نہیں ملتی تھی۔ لیکن یہاں کے رہنے والوں نے ایک اپنا مصنوعی سورج خود بنا لیا ہے۔
اس گاؤں کی آبادی 200 نفوس پر مشتمل ہے۔ نومبر سے فروری تک یہاں سورج طلوع نہیں ہوتا۔ لوگوں کے مسائل دیکھ کر گاؤں کے ایک آرکیٹیکٹ اور انجینئر نے راستہ نکالا۔ انجینئر نے گاؤں کے میئر کی مدد سے ویگالینا گاؤں کے لیے ایک مصنوعی سورج بنایا۔
تین ماہ تک یہ گاؤں تاریکی میں ڈوبا رہا۔ جس کی وجہ سے وہاں رہنے والے لوگوں کی صحت پر بھی برا اثر پڑا۔ 2006ء میں انجینئر نے گاؤں کے میئر کی مدد سے پہاڑوں کی چوٹی پر 40 مربع کلومیٹر کا آئینہ لگایا۔ شیشہ اس طرح لگایا گیا تھا کہ اس پر پڑنے والی سورج کی روشنی منعکس ہو کر سیدھی گاؤں پر گرے۔
پہاڑ کی چوٹی پر نصب یہ آئینہ گاؤں کو دن میں 6 گھنٹے روشن کرتا ہے۔ شیشے کی وجہ تقریباً 1.1 ٹن ہے اور اس کی قیمت 1 لاکھ یورو ہے۔
اس کاریگری میں ٹیکنالوجی کی مدد بھی لی گئی ہے۔ پہاڑ پر نصب شیشوں کو کمپیوٹر سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اپنا سورج بنانے کے بعد ویگالینا گاؤں دنیا بھر میں بحث کا مرکز بن گیا، اب اس کاریگری کو دیکھنے سیاح بھی یہاں آتے ہیں۔
ویگالینا گاؤں کے میئر پیئر فرانکو مدالی نے کہا کہ اس مصنوعی سورج کا آئیڈیا کسی سائنسدان کا نہیں بلکہ ایک عام آدمی کا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ خیال اس وقت سامنے آیا جب سردیوں کے موسم میں سورج کی روشنی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اپنے گھروں میں رہنا شروع کر دیا۔
سردی اور اندھیرے کی وجہ سے شہر بند ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد ایک مصنوعی سورج تیار کیا گیا۔ اب گاؤں کو سردیوں میں بھی سورج کی روشنی ملتی ہے۔