صحافی مطیع اللہ جان نےان سے اس سلوک کی وجوہات پوچھیں تو انکا کہنا تھا کہ جب وزیر اعظم عمران خان کی ان سے آخری میٹنگ ہوئی تو وہ اپنے مخالفین پر مقدمات بنانے پر دباو ڈالتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نے انہیں کہا کہ آپ شریف فیملی کے خلاف مقدمات کیوں نہیں بناتے تو جواب میں انکا کہنا تھا کہ وہ کس قانون کے تحت یہ مقدمات کر سکتے ہیں جبکہ ان کیسز میں کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیر اعظم سے ملاقات پر وہ کے الیکٹرک اور ابراج گروپ کے خلاف فائل لیکر گئے جس پر وزیراعظم نے انہیں کہا کہ وہ کمپنی تباہ ہو چکی ہے اس کیس کو مزید چلانے کا فائدہ نہیں جواب میں ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ کے الیکٹرک کے پاس سوئی گیس کے 87 ارب روپے ہیں جبکہ اس نے SNGPL کے پیسے دینے ہیں۔ مگر انہوں نے یہ کیس بنانے پر ناراضگی کا اظہار کیا شاید انکے ابراج گروپ کے ساتھ تعلقات ہیں۔ تاہم وہ اصرار کرتے رہے کہ شریف خاندان پر مقدمات بنائیں۔ بشیر میمن کے مطابق اس اجلاس میں خواجہ آصف کے کیس کا ذکر بھی آیا، شریف خاندان پر کیسز کے حوالے سے بھی وہ بہت نالاں تھے کیونکہ ان کے خیال میں میں نے ان سب کو چھوڑ دیا تھا۔ میں نے کہا کہ سر نیب ہے نا، آپ ان سے یہ کیسز بنوا لیں۔ میں قانون کے خلاف کام نہیں کر سکتا تھا۔ وزیر اعظم صاحب پھر بہت جذباتی ہو گئے۔
بشیر میمن کا کہنا تھا کہ انہیں شہباز شریف اور انکے بچوں پر کیس بنانے کیلئے دباو کا سامنا کرنا پڑا اور بریفنگ کیلئے پنجاب بھی بلایا گیا۔ انہوں نے ساری بریفنگ لیکر موقف دیا کہ ان میں سے کوئی بھی کیس ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا بلکہ یہ صوبائی اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کا کیس ہے جو اسے خود دیکھنا چاہیئے اور کسی کو مداخلت نہیں کرنی چائیے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل کی جانب سے خاتونِ اول بشریٰ مانیکا کی کوئی تصویر وائرل کی گئی تھی جس پر وزیر اعظم کے دفتر سے کہا گیا کہ ان لوگوں کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ بنایا جائے۔ ’’میں نے پوچھا کہ کس قانون کے تحت دہشتگردی کا مقدمہ بنے گا؟‘‘ ٹھیک ہے کہ ایک تصویر سوشل میڈیا پر ڈالی گئی لیکن یہ دہشتگردی کیسے ہے؟ اور تصویر بھی کوئی نازیبا نہیں، عام سی تصویر تھی۔ مگر وزیر اعظم ہاؤس کا کہنا تھا کہ اس پر دہشتگردی کا مقدمہ بنایا جائے جو کہ میں نے نہیں بنایا۔
بشیر میمن نے کہا کہ انہیں مسلم لیگی رہنماوں پر کیسز بنانے کیلئے دباو ڈالا گیا جن میں شاہد خاقان عباسی کا LNG کیس بھی تھا۔ علاوہ ازیں خواجہ آصف، احسن اقبال ، کیپٹن صفدر سمیت بہت سے رہنماوں پر مقدمات بنانے کا کہا گیا مگر کوئی بھی کیس بنانے سے قبل ہمیں کچھ بنیادی شواہد چاہیئے ہوتے ہیں جو موجود نہیں تھے اسی لئے بعد میں یہ سارے کیسز نیب سے بنوائےگئے اور نیب نے اپنی عزت داو پر لگا کر ہماری عزت بچا لی۔ کیونکہ اعلی عدلیہ نے نیب کے بارے میں جو کہا ہے میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے ادارے کے بارے میں کہے۔
اس انٹرویو میں انہوں نے مسلم لیگی دور حکومت کی باتیں بھی کیں اور کہا کہ ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل انکو جبری چھٹی اور پھر تبادلہ کرنا انکی تضحیک تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اصغر خان کیس میں اہم رکن ہونے کے باعث عدالت نے میرے تبادلے پر پابندی لگا رکھی تھی مگرحکم ثانی کے باعث انہوں نے اس پر بھی کوئی مزاحمت نہ کی۔
یاد رہے کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن نہیں دی جارہی تھی جس پر انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی تاہم عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں انکی پنشن جاری کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=1p5Cao5XoX8#action=share