مریم نواز کے وکیل عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں ہماری افواج دنیا کی بہترین فوج ہیں، ہماری آئی ایس آئی دنیا کی بہترین ایجنسی ہے ، ہم کسی ادارے یا شخص کے خلاف نہیں بلکہ ایک مائنڈ سیٹ کے خلاف ہیں۔
بعدازں عدالت نے مریم نواز کے اعتراضات ختم کردیے اور درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے مقرر کر لیا گیا. کیس پر آئندہ سماعت 13 اکتوبر کو ہو گی.
خیال رہے کہ پیر کو مریم نواز کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک نئی درخواست دائر کی گئی جس میں برطرف جسٹس شوکت صدیقی کے راولپنڈی بار سے خطاب کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ متفرق درخواست میں سابق جج ارشد ملک کی ویڈیو کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کیس میں اہم ثبوت ہے۔
درخواست کے مطابق نیب کے ذریعے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے لیے ایک غیر قانونی ریفرنس دائر کیا گیا۔
سماعت کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ادارے ملک کی قوت ہیں تاہم جب کوئی اس ادارے کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے تو وہ ادارے کی کوئی خدمت نہیں کرتا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ جسٹس شوکت صدیقی کی ویڈیو ریکارڈ پر ہے، اس کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل میں انہوں نے دستخط کے ساتھ بیان حلفی جمع کرایا جو قوم کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ جنرل فیض حمید نے نہ صرف میرے خلاف کیس بنایا بلکہ سزا کی بھی یقین دہانی کرائی اور اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کہ کوئی ایسا بینچ نہ بنے جو 2018 کے الیکشن سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت نہ دے دے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل فیض نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو کہا کہ اگر نواز شریف اور مریم کو ضمانت مل گئی تو ان کی 2 سال کی محنت ضائع ہوجائے گی۔ ان کی 2 سال کی محنت یہ تھی کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو پاناما کیس میں جے آئی ٹی میں پیش کیا جائے، اس کے بعد انہیں پاناما کے بجائے اقامہ پر نکال دیا گیا، پھر ان کے رہنماؤں کو مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کرنے کا کہا گیا اور جنہوں نے بات نہیں مانی انہیں سزا دی گئی اور ان کے خلاف بھی کیسز بنائے گئے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ میرے خلاف مقدمہ جنرل فیض کا بنایا ہوا ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ نیب نے بغیر مشاورت کے ریفرنس کی منظوری دی۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ 'میڈیا کی مجبوریاں جانتی ہوں کہ وہ میرا بیان نہیں چلاسکتا اور چند نے لکھا کہ مریم نواز نے پاکستان کے ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی تاہم یہ بات واضح کرنا چاہتی ہوں کہ ایک شخص کی حرکات کو ادارے کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا نواز شریف کے ساتھ اس طرح کا رویہ تھا کہ ان کی ذاتی رنجش کی بو آنے لگی تھی اور ہر بار ان کا فیصلہ نواز شریف کے خلاف آتا تھا۔
مریم نواز نے مزید کہا کہ جسٹس عظمت سعید نے جو باتیں کیں، ہمیں گاڈ فادر اور سسیلین مافیا کہا، یہ ہمارے چہرے پر داغ نہیں یہ داغ ان کے اپنے کردار پر لگے ہیں۔ ان کے پیچھے کون تھا میں نے آج واضح کردیا، میڈیا قصور وار نہیں کہ وہ میری پوری درخواست نہیں چلاسکی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں چاہتی ہوں کہ میڈیا پر یہ پریشر ہمیشہ نہ رہے، یہ جنگ عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لیے بھی ہے۔ دو سال کی جنرل فیض کی محنت سے قبل کا پاکستان اور ان کی محنت کے بعد کا پاکستان دیکھیں تو لگتا ہے کہ پاکستان کسی جنگ سے آیا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ آپ لوگ کہتے تھے کہ نواز شریف امپائر کو ساتھ ملا کر کھیلتا ہے تو، میری درخواست کے ذریعے قوم کو واضح ہوگیا کہ عمران خان امپائر کو ساتھ ملا کر حکومت کے گرایا اور اس امپائر کا نام جنرل فیض حمید۔
جنرل فیض حمید کے بارے میں آرمی چیف کو شکایت کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرے پٹیشن میں تمام باتیں سامنے آگئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'حقائق اور گواہ قوم کے سامنے ہیں اور امید ہے کہ مجھے اس پر انصاف ملے گا'۔
پینڈورا پیپرز پر بات کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ پینڈورا پیپرز سامنے آگئے ہیں اب کہاں ہیں وہ درخواست گزار جو پاناما پیپرز کی درخواست سپریم کورٹ میں لے گئے تھے۔ آج ہمیں وہ ماحول نظر کیوں نہیں آرہا، جس انسپیکشن کمیشن کو آپ خود چلارہے ہوں وہ آپ کے اے ٹی ایم کا بارے میں کیا تحقیقات کرے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ شوکت عزیز صدیقی کو ہٹایا گیا، قاضی فائز عیسیٰ کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع کردی گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کسی گناہ میں ملوث ہیں اور یہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور اگر ایسا کچھ ہوا تو کسی بھی عدالت میں یہ برقرار نہیں رہے گی۔ یہ ڈیل کا حصہ ہوگا کہ دشمنوں کو نشانہ بنائیں اور ہم آپ کو توسیع دیں گے۔
مریم نواز سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا شہباز شریف اس درخواست میں آپ کے ساتھ ہیں؟جس پر مریم نواز نے جواب دیا کہ آپ مجھ سے میری بات کریں، جماعت کو بیچ میں نہ لائیں۔