پاکستان کے لیجنڈ کامیڈین عمر شریف کی نماز جنازہ مولانا بشیر فاروقی نے پڑھائی، مرحوم کی نماز جنازہ میں اہم شخصیات سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ بعد ازاں ان کی وصیت کے مطابق میت کو حضرت عبداللہ شاہ غازی مزار کے احاطے میں دفن کر دیا گیا۔
عمر شریف کی نماز جنازہ اور تدفین کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ اس سے قبل ان کی میت کو آج صبح ترکش ایئرلائن کے ذریعے کراچی پہنچایا گیا تھا۔ یہاں سے میت کو ایدھی کے سرد خانے منتقل کیا گیا۔
خیال رہے کہ رواں سال اگست میں سوشل میڈیا پر عمر شریف کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد ان کے مداحوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ عمر شریف نے خود بھی ایک ویڈیو پیغام میں وزیراعظم عمران خان سے اپیل کی تھی کہ انھیں علاج کیلئے فوری امریکا پہنچایا جائے۔
عمر شریف کو دل کے مریض تھے جبکہ انہیں شوگر سمیت دیگر بیماریاں بھی تھیں۔ ان کا کراچی کے آغا خان ہسپتال میں تقریباً ایک ماہ تک علاج جاری رہا لیکن ان کی طبعیت نہ سنبھلی۔
انہیں 28 ستمبر کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے امریکا منتقل کیا جا رہا تھا کہ ان کی طبیعت جرمنی میں بگڑ گئی، جس کے بعد انہیں وہاں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور 4 روز تک نیورمبرگ میں زیرعلاج رہنے کے کے بعد وہ انتقال کرگئے۔
عمر شریف نے انتہائی کم عمری میں کیریئر کا آغاز کیا اور محض 14 برس کی عمر میں پہلے ڈرامے میں جلوہ گر ہوئے اور پھر انہوں نے پوری زندگی اسکرین، پردے اور تھیٹر پر گزاری۔
عمر شریف نے 1970 کی دہائی سے اپنے کیریئر کی ابتدا کی تھی، ان کا اصل نام محمد عمر تھا، وہ پاکستانی مزاحیہ اداکار منور ظریف سے بہت متاثر تھے اور ان کو اپنا روحانی استاد بھی مانتے تھے لہٰذا انہی کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی کامیڈی کے خدوخال تشکیل دیے۔
انہوں نے متعدد لازوال اسٹیج ڈرامے لکھے، جن میں سے 'بکرا قسطوں پہ' بھی تھا، عمر شریف کا مذکورہ تھیٹر وہ ڈراما تھا جس کی وجہ سے انہیں عالمی سطح پر شہرت ملی۔
عمر شریف نے فلمی صنعت کا رُخ بھی کیا اور فلمیں بنانے کے ساتھ ساتھ ان میں کام بھی کیا۔ اس تناظر میں ان کی مقبول فلم 'مسٹر 420' ہے، انہوں نے مسٹر 420 (1992)، مسٹر چارلی (1993) اور مس ٹربل سم (1993) جیسی فلموں کی نہ صرف ہدایت کاری کی بلکہ ان کی کہانی بھی لکھی۔
عمر شریف نے 3 شادیاں کیں، ان کی بیگمات کے نام دیبا عمر، شکیلہ قریشی اور زرین غزل ہیں، صرف پہلی بیگم سے ان کے 2 بیٹے ہیں، انہی سے ایک بیٹی تھی جن کا انتقال ہو چکا ہے۔ مرحوم کو اپنی بیٹی کے بھی اس دنیا سے چلے جانے کا بہت غم تھا جسے وہ برداشت نہ کر سکے اور صرف ایک سال کے عرصے میں خود بھی اس کے پاس چلے گئے۔