صداقت عباسی کا پُراسرار انٹرویو؛ '9 مئی کی اصل ذمہ دار بشریٰ بی بی ہیں'

ذرائع کا کہنا ہے کہ صداقت علی عباسی کے انٹرویو کا باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن چینل انتظامیہ کو اس پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اور صرف چند لوگوں کو ہی اس بارے میں علم تھا۔ صداقت علی عباسی کا انٹرویو کر تو لیا گیا تاہم بعدازاں چینل پر نشر نہیں ہو سکا۔

06:15 PM, 6 Oct, 2023

نیا دور
Read more!

پاکستان تحریک انصاف کے سیالکوٹ سے رہنما عثمان ڈار کے منظرعام پر آ کر انٹرویو دینے اور 9 مئی واقعات کی ذمہ داری عمران خان پر ڈالنے کے بعد پی ٹی آئی کے ایک اور لاپتہ رہنما صداقت علی عباسی کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ دو روز قبل انہیں سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ویگو ڈالے میں بٹھا کر اسلام آباد میں ڈان نیوز کے دفتر میں لائے اور اینکر پرسن عادل شاہزیب نے ان کا انٹرویو کیا۔ انٹرویو میں صداقت علی عباسی نے 9 مئی واقعات کی ذمہ داری عمران خان پر ڈالنے کے بجائے بشریٰ بی بی پر ڈالی اور کہا کہ وہی ان دنوں اہم ہدایات دے رہی تھیں۔ یہ انٹرویو بعد ازاں نشر نہیں ہوا اور اسے چینل کے ڈیٹا بیس سے ڈیلیٹ کروا دیا گیا۔ یہ انکشاف کیا ہے صحافی اسد علی طور نے۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں اسد علی طور نے بتایا کہ دو روز قبل رات 12 بجے کے بعد سابق ممبر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے لاپتہ رہنما صداقت علی عباسی کو نجی نیوز چینل ڈان کے آفس پہنچایا گیا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ دو ویگو ڈالے آئے جن میں صداقت علی عباسی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار سوار تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ غالباً یہ اہلکار آئی ایس آئی کے تھے۔ وہی اہلکار انہیں عمارت کے اندر لائے اور عمارت کی سکیورٹی کو بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اینکر پرسن عادل شاہزیب کو پہلے سے بتایا جا چکا تھا اور وہ سٹوڈیو میں ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صداقت علی عباسی کے انٹرویو کا باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن چینل انتظامیہ کو اس پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اور صرف چند لوگوں کو ہی اس بارے میں علم تھا۔ صداقت علی عباسی کا انٹرویو کر تو لیا گیا تاہم بعدازاں چینل پر نشر نہیں ہو سکا۔

اسد طور کے مطابق اس سے قبل پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں بھی صداقت علی عباسی کئی مرتبہ ڈان نیوز کے آفس میں بہت سے پروگرامز میں شرکت کر چکے ہیں۔ وہ ہمیشہ اچھے اور نفیس لباس زیب تن کرتے اور بہت عمدہ طریقے سے پیش آتے تھے۔ لیکن اس بار جب انہیں انٹرویو کے لیے مبینہ طور پر کالے ویگو ڈالے میں لایا گیا تو ان کا حلیہ نیوز چینل پر انٹرویو کے حوالے سے غیر مناسب تھا۔ انہوں نے ٹی شرٹ ایسے پہن رکھی تھی جیسے سونے کے لیے پہنی جاتی ہے۔ ان کے بال بری طرح سے بکھرے ہوئے تھے اور ان کا چہرا سرخ تھا لیکن اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ چہرے کی سرخی کی وجہ کیا تھی۔

صحافی نے کہا کہ ذرائع کے مطابق عباسی صاحب کافی مخبوط الحواس نظر آ رہے تھے کیونکہ بارہا ڈان کے آفس آنے کے باوجود اس بار آنے پر انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس فلور پر اور کس سائیڈ پر سٹوڈیو ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ انہوں نے کس طرف جانا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے ہمراہ آنے والے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد سٹوڈیو میں بھی پورا وقت ان کے ساتھ رہے۔ عباسی صاحب کے بال ٹھیک کیے گئے اور چہرے کا میک اپ کیا گیا۔ عادل شاہزیب کے ساتھ ان کے انٹرویو سے پہلے مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے اہلکار نے ان دونوں کے سامنے ایک ایک صفحہ رکھا۔ اینکر عادل شاہزیب کو دیے جانے والے صفحہ پر شاید انٹرویو کے لیے ہدایات یا پھر پوچھے جانے والے سوالات تحریر تھے۔ اسی طرح صداقت علی عباسی صاحب کو دیے گئے کاغذ پر شاید جوابات تحریر تھے۔ یہ انٹرویو کم و بیش 45 منٹ پر محیط تھا اور صداقت علی عباسی نے عثمان ڈار کی طرح 9 مئی کی پوری ذمہ داری عمران خان پر ڈالنے کے بجائے بشریٰ بی بی پر ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ بشریٰ بی بی ہی ان دنوں سارے اجلاسوں کی صدارت کر رہی تھیں اور وہی ہدایات دے رہی تھیں۔ بعد ازاں اینکر پرسن کی گاڑی میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک افسر اور عباسی صاحب بیٹھے جبکہ ویگو ڈالے ان کی گاڑی کے پیچھے تھے۔ انٹرویو کے بعد یہ لوگ کہاں گئے، اس بارے میں کسی کو علم نہیں۔

اگلے روز ڈان نیوز کی انتظامیہ کو تمام صورت حال کا علم ہوا تو اس وقت ڈان کے پرنٹ میڈیا سے سینیئر صحافی عارفہ نور اور دیگر صحافیوں نے اس حوالے سے احتجاج کیا کہ چینل کس طرح اپنی پالیسی اور اصولوں کو نظرانداز کر کے ایسا انٹرویو نشر کر سکتا ہے۔ چینل انتظامیہ کے حکم پر اس انٹرویو کو نشر ہونے سے روک دیا گیا۔ اس کے بعد انٹرویو کی فائل کو چینل کے ڈیٹا بیس سے ڈیلیٹ کروا دیا گیا اور عملے کو تنبیہ کی گئی کہ اس انٹرویو کا کوئی لفظ بھی چینل سے باہر نہیں جائے گا۔

یہ تمام واقعہ اسلام آباد میں ہوا جہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں موجود ہیں لیکن کسی کے کان پر جُوں تک نہ رینگی۔ صداقت علی عباسی کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے مگر رات گئے ان کا انٹرویو ضرور کروا لیا گیا ہے۔

اسد طور نے کہا کہ 'سکوپ' یعنی بڑی خبر بریک کرنے کے چکر میں ہم صحافی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں اپنا بیانیہ بنانے اور پروپیگنڈا کروانے کے لیے صحافیوں کو ایکسپلائٹ کرتی ہیں لیکن صحافیوں کو کسی کے ہاتھوں میں استعمال نہیں ہونا چاہئیے۔

مزیدخبریں