سیلابوں کے درمیان وقفہ 5 سال سے بھی کم: کیا پاکستان کسی بڑی تباہی کے دہانے پر ہے؟

09:49 AM, 6 Sep, 2020

آصف مہمند
میں 12 سال کا تھا جب میں نے پہلی باردریائے سوات میں سیلابی ریلہ دیکھا۔ اُس ریلے نے ہماری زیر کاشت زمین ہم سے چھین لی تھی۔ ضلع سوات غالیگی یونین کونسل کے رہنے والے 80 سالہ محمد زمان المعرف ( بہ لالا) اپنے حجرے میں دریائے سوات کی خوفناک لہروں کی داستان سنا رہا تھا۔ بہ لالا نے اپنی زندگی میں دریائے سوات کی حالیہ سیلاب سمیت چار بار خطرناک سیلابی ریلے دیکھیں ہیں۔ ان چار سیلابوں میں سب سے خوفناک 28 جولائی کو آنے والا 2010 کا سیلاب ہے جس میں نا صرف بہ لالا کی زرعی زمین بہہ گئی تھی بلکہ پورے صوبے میں جہاں جہاں سے دریائے سوات گزرا تباہی کے گہرے نقوش چھوڑ گیا۔ اُس سیلاب نے  پختونخوا کے بالائی علاقوں کے علاوہ میدانی علاقوں میں بھی لوگوں کو بے گھر کیا تھا۔ چارسدہ نوشہرہ میں بھی لوگ امدادی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ 2010 کے سیلاب اور مسلسل بارشوں نے خیبر پختونخوا کے 23 ضلعوں میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ پختونخوا میں تباہی مچانے کے بعد سیلابی ریلہ پنجاب اور پھر سندھ میں داخل ہوا اور ملک میں تقریبا 2 کروڑ لوگوں کو متاثر اور لگ بگ 1800 کو ہلاک کیا تھا۔ اُس وقت اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب نے پاکستان میں 2010 کے سیلاب کو اس صدی کا ہولناک ترین سیلاب قرار دیا تھا۔

بہ لالا کی کہانی میں دریائے سوات میں خطرناک سیلابوں کے درمیان ایک طویل وقفہ موجود ہے۔ لیکن 2010 کے خونی سیلاب اور حالیہ سیلاب میں صرف 10 سال کا وقفہ محمد زمان سمیت دریائے سوات کے کنارے آباد انسانی آبادی کیلئے تشویشناک ہے۔ جب اس حوالے سے بہ لالا سے سوال کیا گیا تو اس نے کہا اگرسیلاب اسی طرح آتا رہا تودریا کے آس پاس آباد لوگ کہاں جائنگے؟۔  

حالیہ سیلاب کے بارے میں سوات کے مقامی صحافیوں کے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شئیر کئے جانے والے معلومات اوراب تک میڈیا کے مختلف رپورٹس کے مطابق 50 سے زائد لوگ ہلاک جبکہ 120 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ درجنوں کاروباری مراکز اور گھر سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔

پاکستان میں شدید موسمی واقعیات میں اضافے کے حوالے سے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈٰی ایم اے) نے دو ستمبر کو معلومات جاری کیں۔ جس میں مون سون بارشوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 189 بتائی ہے۔ بارشوں نے سندھ کے دیہی علاقوں کے علاوہ شہری ابادی کو بھی متاثر کیا ہے صرف کراچی شہر میں ہلاکتوں کی تعداد 25 ہوچکی ہے۔ ادارے کی جانب سے سیلاب کے الرٹ جاری ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پروینشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈٰ ایم اے) کی جانب سےبھی چارسدہ اور نوشہرہ میں سیلاب سے بچنے کیلئے الرٹ جاری کردیا ہے۔ اور ستمبر میں مون سون بارشوں کی پیشگوئی کر دی ہے۔

خیبر پختونخوا میں شدید موسمی واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

خیبر پختونخوا محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر فہیم سے جب اس حوالے سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا کہ سیلابوں اور دوسرے شدید موسمی واقعات کی بنیادی وجہ کلائیمیٹ چینج ہے۔ پختونخوا کے بالائی علاقوں میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے پہلے بھی لینڈ سلائڈنگ اورسیلاب آتے تھے لیکن پچھلے 20 سالوں میں ان واقعیات میں اضافہ ہوا ہے۔ گلوبل درجہ حرارت بڑھنے سے نا صرف بارشوں کے اوقات میں تبدیلی ہوئی ہےبلکہ پہاڑوں پر موجود برف بھی پگھلنے لگی ہے جس سے دریاوں میں پانی کی سطح اونچی ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر فہیم نے بتایا کہ اب پاکستان میں سردیوں میں زیادہ بارشیں نہیں ہوتی جبکہ مون سون میں بارشیں زیادہ ہوجاتی ہے، یہ سلسلہ جولائی سےشورع ہوکر ستمبر تک چلتا ہے۔

آب ہوا کے بحران کے اثرات پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہے۔ سال 2019 میں انگلینڈ میں مسلسل بارشوں  کے بارے میں اقوام متحدہ کی کلا ئیمیٹ کے حوالے سے سائنسی شواہد اور معلومات اکھٹا کرنے کیلئے مختص انٹر گورمنٹل پینل آن کلائیمیٹ چینج ( ائی پی سی سی) نے رپورٹ شایع کی تھی جسمیں یہ تنبیہہ دی گئی تھی کہ اگر عالمی درجہ حرارت میں کمی نہی آئی تو انگلینڈ میں سردیوں کے موسم میں بھی سیلاب آنے کا خطرہ بڑیگا۔ ائی پی سی سی کے مطابق دنیا میں قدرتی اورشدید موسمی واقعات کی بنیادی وجہ کلائیمیٹ چینج ہے۔ ادارے کے مطابق  درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور گزرے 200 سالوں میں ریکارڈ کی جانے والی درجہ حرارت میں 2010 سے 2019 تک بہت تیزی دیکھنی میں آئی ہے، خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2020 دنیا کا اب تک گرم ترین سال ہوگا۔ ادارے کیمطابق کلائیمیٹ چینج کے اثرات مختلف ملکوں میں مختلف ہے۔ درجہ حرارت زیادہ ہونے سے نا صرف بارشوں کے اوقات میں تبدیلی آئی ہے اور سیلابوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ بعض خطوں میں گرم موسم کی وجہ سے پانی کی سطح کم ہوگئی ہے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ملکوں میں کیا جاتا ہے جہاں آب ہوا کے بحران کی وجہ سے نہ صرف سیلاب جیسی آفتوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ بعض علاقوں میں پانی کی سطح بھی کم بھی ہو رہی ہے۔

دسمبر2019 میں جرمن واچ نامی غیر سرکاری ادارے نے  2020 کیلئے گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈکس رپورٹ شائع کی تھی۔ رپورٹ میں پاکستان کلائیمیٹ چینج کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔  ادارے کے مطابق پچھلے 20 سالوں میں آب ہوا کے بحران کی وجہ سے پاکستان میں تقریباٗ 10 ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور معیشت کو 8۔3 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ملک میں حالیہ مون سون بارشوں اور سیلابوں کی تباہ کاریوں کے علاوہ رپورٹ میں 1999 سے 2018 تک 152 شدید موسمی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ رپورٹ میں مون سون میں زیادہ بارشوں اور سیلاب کے خطرات کے بارے تنبیہہ بھی دی گئی ہے۔

آب ہوا کے بحران پر قابو پانے اور پائیدار ماحول رکھنے کیلئے سسٹینایبل ڈویلپمنٹ گولز( ایس ڈی جیز) میں 13 نمبر گول مختص ہے۔ عالمی معاہدے کی رو سے ہر ملک ایک جامعہ لائحہ عمل تیار کریگا۔ پاکستان گول 13 کیلئے مختص اہداف کب اور کیسے پورا کریگا اس حوالے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ ملک میں آب ہوا کے بحران سے پیدا ہونے والی شدید موسمی اثرات اورآفات سے دریائے سوات کے کنارے بہ لالا کی زیر کاشت زمین محفوظ ہے اور نہ شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والے اس ملک کے شہری۔
مزیدخبریں