ہمیں کشمیری رہنماؤں کی تصاویر جیل میں اور بلوچوں کی تصاویر لاپتہ افراد کے کیمپوں میں اچھی لگتی ہیں

ہمیں کشمیری رہنماؤں کی تصاویر جیل میں اور بلوچوں کی تصاویر لاپتہ افراد کے کیمپوں میں اچھی لگتی ہیں
ستمبر کی پہلی تاریخ کو کشمیری حریت پسند بزرگ رہنما سید علی گیلانی انتقال کرگئے اور ستمبر کی دوسری تاریخ کو بلوچ رہنما (یہاں چونکہ لفظ حریت اپنی معنی بدل سکتے ہیں، اس لیے صرف بلوچ رہنما کافی ہے) سردار عطاء اللہ مینگل بھی نہ رہے۔ بلوچستان کے لوگوں کو ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی ملکی الیکٹرانک میڈیا سمیت قومی اخبارات کے بلوچستان سے شائع ہونے والے صفحات سے بھی شکایت رہی کہ انھوں نے سردار عطاء اللہ مینگل کی خبر کو وہ جگہ نہ دی جو سید علی گیلانی صاحب کو دی۔

سردار صاحب بلوچستان کے پہلے منتخب وزیراعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے لیے کئی دفعہ قید و بند کی صعوبتیں کاٹتے رہے۔ وہ ایک لاپتہ بلوچ نوجوان بیٹے کے والد بھی تھے جس نے آخری دن تک اپنے لاپتہ بیٹے کا لاش تک نہیں دیکھی۔ پھر بھی وہ تھکے نہیں، جھکے نہیں اور سیاست و جدوجہد کو خیرباد نہیں کہا۔ وہ بولتے رہے، ہر سطح پر بلوچستان کی فریاد سناتے رہے اور اپنی زندگی کے آخری عرصے میں انھوں نے بولنے سے بھی کنارہ کشی کی۔ وہ  کہتے تھے کہ میڈیا پر آنے سے بہتر ہے کہ کسی چورہا پر کھڑے ہوکر کسی راہ گیر کو بلوچستان کے دکھ درد سنائے جائیں کیونکہ دونوں جگہوں کا ردعمل ایک جیسا ہی آئے گا۔ اور واقعی میں اسی میڈیا نے ان کی موت کی خبر کو اتنا ہی جگہ دی جتنا کہ کسی چوک چورہاہے پہ کھڑے شخص کو کچھ سنایا جائے۔

مگر سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتے کشمیری راہنما علی گیلانی کی موت کی خبر کے ساتھ سردار عطاء اللہ مینگل کی جیل خانے کی ایک تصویر نے ضرور جگہ بنائی۔ اس تصویر کو ٹرینڈ کروانے والوں نے اسے سید علی گیلانی کی تصویر سمجھ کر شیئر کیا۔ بقول سینئر صحافی رضا رومی کی ایک ٹوئیٹ کے کہ یہ ہمارے نصاب کا المیہ ہے کہ شیئر کرنے والے تحقیق کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ مگر اس نصابی المیہ کے ساتھ ساتھ شاید یہ وہ زہن سازی بھی ہے کہ ہماری آج کی نسل کی ایسی تربیت ہوئی ہے کہ اب ہمیں جیل خانوں اور سلاخوں میں صرف کشمیری ہی اچھے لگتے ہیں۔ بلوچوں کی جگہ تو کسی پریس کلب کے سامنے لگے لاپتہ افراد کی کیمپ میں رکھی ہوئی کوئی تصویر ہے۔



اس تصویر کو کشمیری رہنما کی تصویر سمجھنے والوں کو کوئی کیسے یقین دلائے کہ یہ ایک بلوچ رہنما کی جوانی کی تصویر ہے جس کی حکومت آٹھ ماہ کے اندر ہی گرا دی گئی ۔ جس کے بیٹوں کو سیاست کرنے کے جرم میں قید خانوں میں کئی سال تک رکھا گیا تھا اور ایک بیٹا پچھلے کئی دہائیوں سے لاپتہ ہے۔ اس رہنما کے ساتھیوں میں سے کئی ماردیے گئے ہیں کئی مقدمات کی پیشیاں بھگتے بھگتے چلے گئے۔

لیکن ایک بات ہے کہ بھلے ہی تصاویر کو شیئر کرنے والوں نے بغیر تحقیق کیے ٹرینڈ چلایا مگر اس سے یہ ثابت کیا گیا کہ نام میں کیا رکھا ہے دونوں اطراف جدوجہد ہی ایسی تھی کہ قید و بند میں فرق کرنا مشکل ہوگیا کہ کس نے کتنی تکالیف سہی ہیں۔ بھلے ہی ایک دہلی کی نظر میں اچھا نہیں تھا تو دوسرا اسلام آباد کی نظر میں۔ مگر بلوچستان اور کشمیر دونوں یکساں ماتم اور غمزدہ تھے۔ جس طرح طاقت کے زور پر یہاں ایک خاتون طالب علم رہنما کریمہ بلوچ کی میت کو چور راستوں سے اپنی طویل میں لے کر  دفنایا گیا وہیں بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کی میت ساتھ وہاں ایسا کیا گیا۔

سید علی گیلانی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دہلی والے انھیں کیا لقب دیتے ہیں۔ وہ اپنے نوجوانوں اور کشمیروں کے لیے ایک رہنما ہیں بالکل ویسے ہی سردار عطاء اللہ مینگل کے جسد خاکی کو سلامی دیتے ہوئے کراچی سے وڈھ تک کئی طالب علموں اور عام لوگوں نے انہیں عظیم قائد مان لیا۔ اب دہلی و اسلام آباد کے اخبار چاہے جو مرضی سرخی لگائیں، ٹی وی چینلز جیسی بھی بریکنگ نیوز دیں اس سے کشمیری و بلوچ نوجوانوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے لیے میڈیا کی مثال بالکل ویسے ہی بن چکی ہے جیسے کسی چوک چوراہے پہ گزرے راہ گیر کو کچھ سنانا۔

جہاں تک بات سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتی تصویر کی ہے تو اس تصویر کو جس کا بھی نام دیا جائے ہے تو وہ حریت، جدوجہد اور عظیم قائد ہونے کی تصویر جو بلاشبہ جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے ہر مظلوم اقوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ اور ہاں یہ تصویر ہمارے نصاب کا المیہ اور بلوچستان و کشمیر کے لیے طے شدہ الگ الگ زاویوں کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ ہمارا وہ جم غفیر (جسے نئی نسل کہا جاتا ہے) نے مختلف موضوعات کو کہاں اور کیسے دیکھنے کی تربیت حاصل کی ہے۔

 

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔