اسپیکر رولنگ کیس میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم یہاں بیٹھ کر غیر آئینی کام ہونے دیں؟ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ آئین کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، پنجاب کی بیوروکریسی کو بھی رات کو طلب کیا گیا، سابق گورنر پنجاب آج باغ جناح میں حلف لے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں تحریری جواب جمع کرائیں، ہم اس معاملے میں مداخلت نہیں کرتے، لاہور ہائیکورٹ پنجاب کا معاملہ دیکھے گی، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے، خود فریقین آپس میں بیٹھ کر معاملہ حل کریں۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا را کہ آئین دس بارہ صفحوں کی کتاب ہے کسی بھی ٹائم پھاڑ سکتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تقریر نا کریں ہم پنجاب کے مسائل میں نہیں پڑنا چاہتے۔ کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ کل ٹی وی پر یہ بھی دکھایا گیا کہ پنجاب اسمبلی میں خاردار تاریں لگا دیں، معاملات کو کہاں لے کر جا رہے ہیں؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ تحریک عدم اعتماد کا معاملہ عوام کو متاثر نہیں کر رہا؟
جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ کیا غیر آئینی کام ہوتا رہے اسے تحفظ حاصل ہے؟ کیا ہم یہاں بیٹھ کر غیر آئینی کام ہونے دیں؟
چیف جسٹس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے، چیف جسٹس نے اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹادیا اور صدر کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا دیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر زیادتی کسی ایک رکن کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟
اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، نیشنل اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے اس نے اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹر منتخب کرنا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے، کہیں تو لائین کھینچنا پڑے گی۔
صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آئینی قرار دیا، عدالت نے اسمبلی کے خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔
وزیراعثم کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کاروائی میں مداخلت نہیں، عدالت کے سامنے معاملہ ہاوس کی کاروائی کا ہے،
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے قومی مفاد کو دیکھنا ہے۔ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن اناونس کردیں، چیف جسٹس بندیال الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے،
امتیاز صدیقی نے کہس کہ ایوان کی کاروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمان اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے،
چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، وزیراعظم صدر کی ہدایات پر کام کر رہے ہیں۔
،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے۔ وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ عدالت پارلیمان کو اپنا گند صاف کرنے کا کہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ میں شامل ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں اور بار کونسلز کے وکلاء دلائل مکمل ہو چکے ہیں، پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان اور صدر مملکت کے وکیل علی ظفر کے دلائل بھی مکمل ہو چکے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے وکیل امتیاز رشید صدیقی آج دلائل دیں گے، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل نعیم بخاری اور اٹارنی جنرل بھی آج دلائل دیں گے۔
عدالت کے حکم پر اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری 31 مارچ کے اجلاس کے منٹس پیش کریں گے۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بظاہر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے جا رہی تھی لیکن ووٹنگ والے دن رولنگ آگئی، یہ رولنگ بظاہر الزامات اور مفروضوں پر مبنی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ موجودہ کیس میں آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور جب آئین کی خلاف ورزی ہو، عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کر سکتی ہے۔