تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ میں عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق از خود نوٹس پر سماعت آج دوبارہ شروع ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے اس تاریخی کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس عمر عطا کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس لارجر بنچ کا حصہ تھے۔
سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ سامنے آچکا ہے کہ سپیکر کی رولنگ غلط ہے۔ اب آگے کیا ہونا ہے، یہ دیکھنا ہے۔
چیف جسٹس کےریمارکس
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ واضح کریں کہ ملک میں کوئی آئینی بحران ہے تو کیسے ہے؟ آئینی بحران کہاں ہے؟ عدالت کو تو کہیں بحران نظر نہیں آ رہا ہے۔ وزیراعظم آئین کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ نگران وزیراعظم کے تقرر کا عمل بھی جاری ہے۔ اس سب میں بحران کہاں ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کا آپس میں تعلق اتنا خراب ہے کہ پتا نہیں ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں۔ عوامی حقوق کا تحفظ کریں گے۔ آرٹیکل 184/3 میں کیس سن رہے ہیں۔ ہمیں آئین پر سختی سے عمل کرتے ہوئے فیصلہ جاری کرنے دیں۔ قانون کے مطابق ہی چلیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر، وزیراعظم اور سپیکر کی بارے میں مخدوم علی خان نے سخت زبان استعمال کی۔ عدالت نے کسی کی بے عزتی نہیں کرنی۔
وکیل نعیم بخاری کے دلائل
سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے سپریم کورٹ میں اپنے دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا تاہم پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے۔
جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا پوائنٹ آف آرڈر کے وقت سپیکر کو کوئی مواد دیا گیا تھا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا سپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟
نعیم بخاری نے کہا کہ اگر سپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا، کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا زیر التوا تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟
نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے۔ پہلےکبھی ایسا ہوا نہیں لیکن سپیکر کا اختیار ضرور ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کا مطلب نہیں کہ مسترد نہیں ہو سکتی۔ عدالت بھی درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرکے بعد میں خارج کرتی ہے۔ اسمبلی کارروائی شروع ہوتے ہی فواد چودھری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا تھا۔ اگر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہو جاتی تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں لیا جا سکتا تھا۔
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے استفسار کیا کہ کیا فواد چودھری کے پوائنٹ آف آرڈر کا ٹرانسکرپٹ ہے؟ اس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ پوائنٹ آف آرڈر کا ٹرانسکرپٹ بھی دکھاؤں گا۔ سپیکر کو اختیار ہے کہ ایجنڈے میں جو چاہے شامل کرلے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ قرارداد اور تحریک کے لفظ میں کیا فرق ہے؟ نعیم بخاری نے بتایا کہ قرارداد اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد ہونے کا مطلب ووٹنگ کیلئے پیش ہونا نہیں؟ تحریک عدم اعتماد کے علاوہ پارلیمان کی کسی کارروائی کا طریقہ آئین میں درج نہیں۔ کیا اسمبلی رولز کا سہارا لے کر آئینی عمل کو روکا جا سکتا ہے؟ کیا سپیکر آئینی عمل سے انحراف کر سکتا ہے؟ کیا آئینی عمل سے انحراف پر کوئی کارروائی ہو سکتی ہے؟
نعیم بخاری نے بتایا کہ تمام اپوزیشن اراکین نے کہا تھا کہ سوال نہیں پوچھنے صرف ووٹنگ کرائیں۔ اس شورشرابے میں ڈپٹی سپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو خط پر بریفننگ دی گئی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو نتائج اچھے نہیں ہونگے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے،پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ کیا وزیرخارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھے؟وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے،کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نےبتایا کہ وزیرخارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چائیے تھا۔
نعیم بخاری نے فواد چودھری کا پوائنٹ آف آرڈر بھی عدالت میں پیش کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی اجلاس میں 57 ارکان موجود تھے،اراکین اسمبلی کے نوٹس میں خط کے مندرجات آگئے تھے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ پوائنٹ آف آرڈرپررولنگ کے بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟۔ اس پر نعیم بخاری نے بتایا کہپوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے میٹنگ منٹس میں ڈپٹی اسپیکر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی،ڈپٹی اسپیکرقومی اسمبلی اجلاس میں موجود تھے، رولنگ پر دستخط بھی ڈپٹی اسپیکر کی جگہ اسپیکر نے کئے ہیں اورکیا ڈپٹی اسپیکر جلدی میں تھے؟
اس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ جودستاویز پیش کی گئی ہیں وہ شاید اصلی والی نہیں ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیاعوامی نمائندوں کی مرضی کےخلاف رولنگ دینا پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں؟۔ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ پارلیمان کے اندر جو بھی ہو اسے آئینی تحفظ حاصل ہوگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ میں اٹھائے گئے نکات پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں تھے؟نعیم بخاری نے بتایا کہ حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا، ہمارا موقف ہے کہ رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا، ایوان کے پاس رولنگ مسترد کرنے کا اختیار تھا لیکن نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اسمبلی تحلیل ہونے سے آسمان گرا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت اسمبلی تحلیل کا جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جس رولنگ کی بنیاد پراسمبلی تحلیل ہوئی اسے چھوڑکرباقی چیزوں کا جائزہ کیسے لیا جا سکتا؟ اگر اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو متاثرہ ارکان کے پاس داد رسی کو طریقہ کا کیا تھا۔
جسٹس منیب اخترنے استفسار کیا کہ رول 28 کے تحت کیا لفظ اسپیکر ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ موجود ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ آرٹیکل 69 میں اسپیکر کے ساتھ ڈپٹی اسپیکر کا ذکر ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ بطور سینیر وکیل بتائیں کہ کیا آرٹیکل 95 کےلیے کسی رول کی ضرورت ہے؟ آرٹیکل 95 مکمل ضابطہ ہے، کیا اس کی خلاف ورزی کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ کس حد تک پارلیمانی کارروائی میں مداخلت ہو سکتی ہے،یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔
عدالت میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کا بیان
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لئے اعزاز ہے۔ عام آدمی ہوں قانونی بات نہیں کروں گا۔ سپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہو جائے گی۔ رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملک بھر نے اپوزیشن اتحاد کو تسلیم کیا۔ اپوزیشن خدمت کیلئے تیار ہے، آپ کو فرق نظر آئے گا۔پارلیمنٹ کا عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے، جو بلنڈر ہوئے ان کی توثیق اور سزا نہ دیے جانے کی وجہ سے یہ حال ہوا۔ ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا۔ عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ سیاسی الزام تراشی نہیں کروں گا، مطمئن ضمیرکے ساتھ قبر میں جاؤں گا۔ آج بھی کہتا ہوں چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں، عوام بھوکی ہوتوملک کوقائدکاپاکستان کیسےکہیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کیلئے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا، سری لنکا میں بجلی اور دیگرسہولیات کیلئے بھی پیسہ نہیں بچا، ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے، آج روپے کی قدر کم ہوگئی، ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے۔ قومی مفاد اور عملی ممکنات دیکھ کر ہی آگے چلیں گے۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل شہبازشریف سے سوال کیا کہ اپوزیشن پہلےدن سےالیکشن کرانا چاہتی تھی، آج آپ کوالیکشن میں جانے سے کیا مسئلہ ہے؟ جس پر شہبازشریف کا کہنا تھا کہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آئین کی مرمت ہم کر دیں گے۔
ن لیگ کے وکیل محدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا، اسلام آباد:عدالت سیاسی تقاریر پرنہ جائے،20 سال سے ہر حکومت حکومت اتحادی ہی بنی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے جواب دیا کہ سرپرائزپر اپنا فیصلہ واضح کرچکے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ رولنگ کو ختم کرکے دیکھیں گے کہ آگے کیسے چلنا ہے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا الیکشن کا مطالبہ پورا ہو رہا ہے تو ہونے دیں۔ جنہوں نے عمران خان کو پلٹا ہے وہ شہباز شریف کو بخشیں گے؟ سب چاہتے ہیں اراکین اسمبلی کے نہیں، عوام کے منتخب وزیراعظم بنیں۔
عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل
عمران کے وکیل امتیاز صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سے اجتناب کرتی رہی ہے۔ انھوں نے حوالے دیا کہ چوہدری فضل الہی کیس میں اراکین کو ووٹ دینے سے روکا گیا تھا اور تشدد کیا گیا،عدالت نے اس صورتحال میں بھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کی تھی۔
وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دئیے کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پراعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی اسپیکرنےاپنے ذہن کے مطابق جو بہترسمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس دئیے کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی، عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔
امتیاز صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کاروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔جسٹس منیب اخترنےریمارکس دئے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں،عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنزکی پابند نہیں۔
امتیاز صدیقی نے وضاحت دی کہ ڈپٹی اسپیکرنےنیشنل سکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا،نیشنل سکیورٹی کمیٹی پرکوئی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کوکب بریفنگ ملی تھی؟اس پر وزیراعظم کے وکیل نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کی ڈپٹی اسپیکرکوبریفنگ کا علم نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کو معلوم نہیں تو اس پر بات نہ کریں۔
عدالت کووزیراعظم نے وکیل نے بتایا کہ جب وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد خارج ہونے کا علم ہوا توانھوں نے اسمبلی تحلیل کردی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسپیکرنےتحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی توایوان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ختم کرسکتا تھا،وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔
امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ اگربدنیت ہوتا تو اپنی حکومت ختم نہ کرتا، وزیراعظم نے کہا ہے کہ انتخابات پر اربوں روپے لگیں گے۔
صدر مملکت عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل
صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ بیرسٹرعلی ظفرنے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔
جسٹس مظہرعالم نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اور اسے تحفظ حاصل ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو داد رسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟۔ علی ظفرنےجواب دیا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔
صدر مملکت کے وکیل نے کہا کہ وفاقی حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدم اعتماد پراگر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کےالیکشن اورعدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔
علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ جیسے پارلیمنٹ عدلیہ میں مداخلت نہیں کرسکتی ویسے ہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟۔
علی ظفرنےکہا کہ وفاقی حکومت کی تشکیل اوراسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس تھے کہ عدم اعتماد پراگرووٹنگ ہوجاتی تومعلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا۔ علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کےالیکشن اورعدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ جونیجو حکومت کا خاتمہ عدالت نے خلاف آئین قرار دیا تھا،جونیجو کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ معاملہ الیکشن میں جا رہا ہے،اس لئےعوام فیصلہ کرے گی۔ اس پر جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے ریمارکس دئیے کہ جونیجو دورمیں صرف اسمبلی تحلیل ہوئی تھی اورکچھ نہیں ہوا تھا۔ علی ظفر نے بتایا کہ عدالت نے انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔
اس پر جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ موجودہ کیس میں اسمبلی تحلیل سے پہلےعدم اعتماد پر رولنگ ہے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے اورالیکشن کا اعلان ہوگیا ہے،اب عدالت مداخلت نہ کرے، عدالت کئی مقدمات میں قرار دے چکی ہے کہ الیکشن میں مداخلت نہیں کرسکتے۔