پانچ ججز پر مشتمل بنچ کے اس فیصلے نے پاکستان تحریکِ انصاف کی سیاست کو بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ اتوار کی صبح جب انہوں نے ڈپٹی سپیکر سے یہ غیر قانونی رولنگ دلوائی تھی، تو اسے سرپرائز کا نام دیا تھا اور اپنے مخالفین کا خوب مذاق اڑایا تھا۔ انہوں نے اس غیر آئینی اقدام کو اپنی بڑی فتح قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر میں پہلے ہی بتا دیتا کہ میں کیا فیصلہ کرنے والا ہوں تو سب لوگ اب تک سرپرائز میں نہ ہوتے۔
لیکن اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ ممکن ہے عمران خان اب بھی کوئی غیر قانونی سرپرائز دینے کا سوچ رہے ہوں، یا کوئی اور بہانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں، مثلاً اے آر وائے نیوز پر ان کے قریبی سمجھے جانے والے سینیئر صحافی صابر شاکر کا کہنا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کا حکم سپیکر قومی اسمبلی کے لئے لیکن ممکن ہے کہ ہفتے کی صبح سپیکر صاحب بیمار ہوں۔ ایسے آئیڈیاز یقیناً عمران خان اور تحریکِ انصاف کے زرخیز دماغوں میں بھی آ رہے ہوں گے لیکن اس سے 1975 کی اسی شہرۂ آفاق فائٹ کی یاد تازہ ہوتی ہے جس میں محمد علی سے لڑتے ہوئے جو فریزر کی آنکھ بند ہو چکی تھی، چہرے پر جگہ جگہ سے خون رس رہا تھا، وہ 15ویں راؤنڈ میں واپس لڑنے پر بضد تھے لیکن ان کے منیجر ایڈی فچ نے ریفری کو فائٹ روکنے کا اشارہ کر دیا تھا۔ فریزر اب بھی کھڑے ہو کر لڑنا چاہتے تھے، اور ایڈی فچ ان کے کان میں کہہ رہے تھے، دا فائٹ از اوور، جو۔ مقابلہ ختم ہو چکا ہے۔
فواد چودھری کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ملک میں مزید بے یقینی پھیلے گی۔ تاہم، بیشتر تجزیہ کار اب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ عمران خان کو سیاسی محاذ پر اپنی جنگ یقیناً جاری رکھنی چاہیے، لیکن کیا انہیں مزید غیر آئینی اقدامات کرنے چاہئیں؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کیا انہیں غیر اخلاقی اقدامات کرنے چاہئیں؟ ان سوالوں کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ وہ حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ ان کے مخالفین ان کی اپنی پارٹی کے منحرف ارکان کے بغیر بھی پارلیمان میں اپنی عددی اکثریت ثابت کر چکے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی تعداد 176 ہے جب کہ انہیں عدم اعتماد کامیاب کروانے کے لئے محض 172 کی ضرورت ہے۔ 22 منحرف پی ٹی آئی ارکان اس کے علاوہ ہیں۔ وہ یہ ایوان میں ثابت کر چکے ہیں کہ ان کی تعداد 198 ہے۔ اس اجلاس کی قانونی حیثیت بھلے نہ ہو، وہ لیکن دنیا کو اور سب سے بڑھ کر عمران خان کو یہ باور کروا چکے ہیں کہ ان کی پارلیمان میں اکثریت ختم ہو چکی ہے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال پنجاب میں ہے جہاں عمران خان کے اتحادی پرویز الٰہی اپنی جوڑ توڑ کی مہارت رکھنے کی شہرت کے باوجود عددی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہیں اور انہوں نے پنجاب اسمبلی میں ایک مبینہ توڑ پھوڑ کی ویڈیو دکھا کر اجلاس کئی دن کے لئے ملتوی کر دیا۔ سپیکر کا عہدہ چھوڑا نہیں اور وزارتِ اعلیٰ کا الیکشن لڑ رہے ہیں، شکست دیکھ کر اجلاس ملتوی کیا اور ڈپٹی سپیکر نے اجلاس بلایا تو اس کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آ گئی اور سپیکر صاحب نے ان کو تفویض اختیارات واپس لے لیے جن کے تحت وہ اسمبلی کا اجلاس بلا سکتے تھے۔ وہ بھی اخلاقی طور پر یہ الیکشن ہار چکے ہیں کیونکہ ان کے مخالف حمزہ شہباز اپنی عددی اکثریت ایک ہوٹل میں ثابت کر چکے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اس کا بھی تمسخر اڑانے کی کوشش کی لیکن یہ تاریخ اور روایات سے نابلد ہیں۔ دنیا بھر میں اپنی عددی اکثریت ایسی ہی کسی تقریب میں ثابت کی جاتی ہے جس کے بعد صدر یا صوبائی اسمبلی کی صورت میں گورنر کسی جماعت کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ حکومت بنائے۔ حمزہ شہباز کی جانب سے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں بلائے اس اجلاس کی قانوناً کوئی حیثیت نہیں لیکن وہ بھی حکومت پر اپنا حق ثابت کر چکے ہیں۔
اب غیر آئینی و غیر اخلاقی سرپرائزز کے سوا کوئی تیر عمران خان و ہمنوا کے ترکش میں نہیں بچا۔ وہ اب بھی بضد ہیں کہ ہار نہیں مانیں گے۔ کاش کوئی ان کے کان میں بھی یہ بات کہہ رہا ہو، اور وہ سن بھی لیں، کہ مقابلہ ختم ہو چکا ہے۔ The fight is over, Joe۔