پاکستان میں 75 سالوں سے مقدس سمجھے جانے والے طاقت کے بُت ٹوٹ رہے ہیں

12:45 PM, 7 Apr, 2023

عظیم بٹ
دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ بیش تر ملکوں میں بہت ساری باتیں مشترک پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ آج جن ترقی یافتہ ملکوں کے ویزے کے لئے ہماری نوجوان نسل ترستی نظر آتی ہے وہ بھی پہلے دن سے مہذب اور ترقی یافتہ نہیں تھے بلکہ وہاں بھی عوامی سوچ کا ارتقا کئی مرحلے طے کرنے کے بعد ہوا۔ وہاں بھی عوام نے پرانے روایتی بتوں کو توڑا اور پھر ایک بڑی مزاحمت کے بعد وہاں ترقی کی راہ ہموار ہوئی۔ دوسری بات جو ان ملکوں میں مشترک نظر آتی ہے وہاں کسی نہ کسی شخص یا اشخاص کے گروہ یا کسی ایک عقیدے کی بے جا پرستش کی جاتی تھی اور تمام اچھے برے کاموں کا ذمہ دار انہیں ٹھہرایا جاتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ سوچ کی پستی اور کچھ نہ کرنے کی عادت تھی۔ کہتے ہیں ظلم سہنے والے کو مظلوم لکھنا بھی بیوقوفی ہے کیونکہ جو ظلم سہہ رہے ہیں وہ خود اپنے اوپر اور آنے والی نسلوں پر ظلم کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ظلم کے خلاف خود آواز نہ اٹھانا اور کسی مسیحا کا انتظار کرتے رہنا بذات خود ظلم ہے۔

ایک اور بات جو مجھے چند مہذب ممالک کی تاریخ میں ایک سی ملی ہے وہ ایک خاص وقت کے بعد کسی مخصوص واقعے پر قوم کا جاگنا اور پھر آگے بڑھنا ہے۔ کم از کم 100 سال کا عرصہ ہر قوم کو اپڈیٹ ہونے میں لگا ہے اور ہر قوم کی سوچ کا ارتقا اور ترقی کا سفر مکمل زوال پذیر ہونے کے بعد ہی شروع ہوا ہے۔

اس تمہید کا مقصد یقیناً ملک پاکستان کے حالات و واقعات ہی ہیں۔ پاکستان کو بنے 75 سال بیت چکے ہیں اور ان سالوں میں ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ چاہے معیشت ہو، سیاست ہو یا پھر معاشرتی اقدار ہوں؛ سبھی زوال پذیر ہیں۔ روایت اور کلچر کی بیڑیاں ہمارے پاؤں میں ہیں۔ ذہنی طور پر ہم مفلوج ہو چکے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ مفاد پرست ٹولے نے ہمیں اپنے مفاد کی خاطر ذہنی لحاظ سے مفلوج بنا رکھا ہے۔ یہاں کبھی بھی عوامی رائے کا احترام نہیں کیا گیا بلکہ مخصوص شخصیات کا احترام جھوٹ کے سہارے عوام کے ذہنوں میں انجیکٹ کیا گیا ہے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سانحات کو بھی جشن سمجھ کر مناتے ہیں اور جشن کو سانحات تسلیم کرتے ہوئے بجائے ان سے سیکھنے کے الٹا ان پر ماتم کرنے لگ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آزادی بنگلہ دیش 1971 ہو یا تقسیم ہند 1947 ہو، ان دونوں سے متعلق ہم اسی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کی سوچ کا ارتقائی سفر تب شروع ہو گا جب ہم 47 کے واقعے کو تقسیم ماننا شروع کریں گے بجائے اس کے کہ آپ اسے آزادی یا جشن تسلیم کرتے ہوئے 75 سالوں سے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے مزید ناکامی میں دھنستے چلے جائیں۔

یہ جشن آزادی اس دن تسلیم کیا جانا چاہئیے جس دن آپ ریاست پاکستان کو اس حد تک مضبوط بنا دیں کہ آپ کو اس نظریے کے صحیح یا غلط ہونے پر بحث نہ کرنی پڑے بلکہ ریاست کی صورت حال ہی آپ کے لفظ جشن اور آزادی کو خود سے بیان کر دے۔

پاکستان کا قیام کس لیے ہوا، یہ 75 سال گزرنے کے بعد بھی اہم بحث ہے کہ آیا مقصود مسلم ریاست کا قیام تھا یا مسلمانوں کیلئے الگ ریاست کا؟ سننے پڑھنے میں شاید یہ معمولی سا فرق لگے مگر اس معمولی فرق میں پوری ریاست اور اس کا موجودہ نظام اور اس میں موجود بگاڑ نظر آتا ہے۔

قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر تو یہ واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کیلئے الگ ریاست کا قیام اُن کا مقصد ضرور تھا مگر خالصتاً اسلامی ریاست بنانا قطعاً ان کا مقصد نہیں تھا۔

دوسرا قابل بحث مدعا یہ ہے کہ آیا اس ملک میں کبھی جمہوریت بھی رہی ہے یا نہیں۔ ملک کے پہلے 10 سالوں میں جہاں دو وزرائے اعظم رہنے چاہئیں تھے وہاں 8 وزیر اعظم آئے اور تبدیل کر دیے گئے۔ اس ملک میں درجہ چہارم میں جو بندہ سرکاری نوکری پر بھرتی ہوتا ہے اس کی نوکری ملک کے وزیر اعظم سے زیادہ مضبوط اور محفوظ ہوتی ہے، یہ اس ملک کا المیہ ہے۔

ہم نے کبھی کمانا سیکھا ہی نہیں۔ بدقسمتی سے ہم 1947 سے ہی اپنی مانگنے کی صلاحیت پر مبنی سی وی لیے امریکہ کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے امریکہ سے 5 ارب ڈالر کی امداد مانگی اور اسی پالیسی کو آگے ایوب خان نے جاری رکھا۔ اس طرح ملک میں امریکی تسلط اس حد تک قائم ہو گیا جس کا خمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ ہمیں تاریخ کو اس قدر مسخ کرکے پڑھایا گیا کہ نوجوان حقیقت کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے لہٰذا جب ان کو حقیقت بتائی جائے تو وہ حب الوطنی کے نام پر آپ کو کاٹنے دوڑتے ہیں۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی عوام کو یہ پڑھایا اور بتایا جا رہا ہے کہ ایوب خان دور میں معیشت میں بہتری آئی مگر یہ نہیں بتایا جا رہا کہ کیسے اور کیوں آئی! اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے؟ آپ نے اپنی ریاست کی خودمختاری اور خود داری کو اغیار کے پاس گروی رکھوا کر بھیک سے ملے پیسے اور بیرونی طاقتوں کا آلہ کار بننے کو ترجیح دی۔

یہ وہ بنیادی اور حقیقی وجہ ہے جس کے باعث ملک میں امریکی ڈالروں کی ریل پیل شروع ہوئی اور بدقسمتی سے وہ پیسہ بھی مکمل شفافیت کے ساتھ عوام پر خرچ نہیں ہوا بلکہ طاقتور حلقوں نے اسے اپنے مفاد کیلئے جمع کرنا شروع کر دیا۔ کشمیر اور ہندوستان دشمنی کے نام پر ایسا نظریہ فروغ دیا گیا کہ اس کو غداری اور حب الوطنی سے جوڑ دیا۔ اس پر مزید الفاظ دہرانے کی بجائے عائشہ صدیقہ صاحبہ کی کتاب 2008 کا ڈیٹا بتاتے ہوئے کہتی ہے کہ 100 بلین ڈالر کا بزنس سٹرکچر ہے جو ریاست کے اندر ریاست کا تصور پیدا کر چکا ہے۔

لہٰذا قصہ مختصر یہ کہ اب 75 سال سے بنائے جھوٹے بت جن کی پرستش زبردستی کروائی جا رہی تھی وہ ٹوٹ رہے ہیں اور لوگ حقیقت کو تسلیم کر رہے ہیں۔ نئی نسل کو مزید اس طرف آنے کی ضرورت ہے کہ غیر جانبدار ہو کر ماضی کا مطالعہ کریں اور حال کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو سنواریں۔
مزیدخبریں